السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنی ملکیت کے چوتھے حصے کے بارے میں یہ وصیت کی کہ اس سے دو قربانیاں کر دی جائیں اور اس سے جو رقم بچ جائے اسے اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ لڑکے کا حصہ لڑکی سے دوگنا ہو، وکیل وصیت نے اس چوتھے حصے سے ایک دوکان خرید لی اور اس کے کرائے سے دو قربانیاں دیں اور باقی رقم وصیت کے مطابق اس کی اولاد میں تقسیم کر دی اور چوتھے حصے کے بعد جو باقی رقم تھی وہ بیس ہزار ریال تھی جسے اس نے کاروبار میں لگا دیا اور اس سے بہت سا زیادہ نفع ہوا کیا وہ اس نفع کو بھی حسب وصیت وارثوں میں تقسیم کر دے یا یہ نفع وصیت کردہ چوتھائی حصے کے تابع ہو گا کہ اسے وارثوں میں تقسیم نہ کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر امر واقع اسی طرح ہے جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تو ان بیس ہزار ریال کا ہر نفع وصیت سے زیادہ ہو گا اور اسے حسب وصیت وارثوں ہی میں تقسیم کیا جائے گا کیونکہ مقصود یہ ہے کہ نفع سے اس کی طرف سے ہر سال دو قربانیاں کر دی جائیں اور جو رقم ان قربانیوں سے بچ جائے گی وہ زائد ہو گی خواہ دونوں قربانیاں دوکان کے کرائے سے کی جائیں یا بیس ہزار ریال کے نفع سے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب