السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کے دو بیٹے ہیں اور اس نے وصیت کی ہے کہ اس کا مکان ان میں سے ایک کو دے دیا جائے، پھر اس نے اپنی بیوی کی وفات کے بعد ایک اور شادی کی اور اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس بیٹے کا وراثت میں کیا حصہ ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ آدمی جس کے دو بیٹے ہیں اور اس نے ان میں سے ایک کے بارے میں یہ وصیت کی ہے کہ اس کا مکان اسے دے دیا جائے ، یقیناً یہ حرام اور باطل وصیت ہے کیونکہ اس وصیت میں ایک وارث کی تخصیص کی گئی ہے اور ایک بیٹے کو دوسرے پر ترجیح دی گئی ہے اور یہ دونوں باتیں حرام ہیں پہلی بات یہ ہے کہ وارث کے لئے وصیت حرام ہے کیونکہ یہ حدود الٰہی سے تجاوز ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و حکمت کے مطابق وراثت کو تقسیم فرما دیا ہے اور وراثت کے سلسلے کی پہلی آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے:
﴿ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم لا تَدرونَ أَيُّهُم أَقرَبُ لَكُم نَفعًا ۚ فَريضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا ﴿١١﴾... سورة النساء
’’ تمہارے آبائو و اجداد ہوں یا تمہارے بیٹے، تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے کے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور کامل حکمت والا ہے۔‘‘
دوسری آیت میں فرمایا:
﴿تِلكَ حُدودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسولَهُ يُدخِلهُ جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها ۚ وَذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا خـٰلِدًا فيها وَلَهُ عَذابٌ مُهينٌ ﴿١٤﴾... سورة النساء
’’یہ (احکام) اللہ کی حدیں ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی فرماں برداری کرے گا ، اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اللہ اسے دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہو گا۔‘‘
اور تیسری میں فرمایا:
﴿يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم أَن تَضِلّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَىءٍ عَليمٌ ﴿١٧٦﴾... سورة النساء
’’اللہ تم سے یہ (احکام) اس لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جائو اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ اولاد میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا بھی ظلم و ستم ہے چنانچہ صحیحین میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں کچھ مال بطور عطیہ دیا تو نعمان کی والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپﷺ کو اس عطیہ پر گواہ نہیں بنا لیتے، نعمان بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب مجھے اٹھا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہﷺآپ گواہ بن جائیں کہ میں نے اپنا فلاں مال نعمان کو عطیہ میں دے دیا ہے؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((أكل بنيك قدنحلت مثلما نحلت النعمان ؟ قال : لا، قال : فأشهد على هذا غيري، ثم قال : أيسرك أن يكونواإليك في البر سواء ؟ قال: بلى قال : فلاإذا )) ( صحيح البخاري)
’’ کیا تو نے اپنے ہر بیٹے کو اتنا مال بطور عطیہ دیا ہے جتنا نعمان کو دے رہے ہو؟میرے والد نے جواب دیا، جی نہیں تو آپﷺ نے فرمایا جائو پھر میرے علاوہ کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو اور پھر فرمایا:کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تمہارے تمام بچے تم سے یکساں حسن سلوک کا مظاہرہ کریں؟ عرض کیا ہاں۔ تو
نبیﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
((فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم)) ( صحيح البخاري)
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں عدل کرو۔‘‘
پھر اس سے واضح ہوا کہ کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے ایک بیٹے کو تو کوئی عطیہ دے اور دوسروں کو اس سے محروم کر دے کیونکہ یہ خلاف عدل ہے۔
سائل نے جو یہ پوچھا ہے کہ اس آدمی نے اپنی پہلی بیوی کی وفات کے بعد ایک اور شادی کی اور اس کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو اس بچے کا وارثت میں سے کیا حصہ ہو گا؟ تو اس سوال کا جواب اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تمام وارثوں کی تفصیل معلوم نہیں ہو جاتی کیونکہ تفصیل ہی سے معلوم ہو گا کہ وارث کون ہے اور وراثت میں اس کا کتنا استحقاق ہے؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب