السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک مسجد بنانے کے لئے مال جمع کیا گیا، مسجد مکمل ہو گئی لیکن بہت سا مال بچ گیا، ایک دوسرے علاقے میں بھی ایک مسجد ہے اور اس کے ارد گرد بہت سے مسلمان رہائش پذیر ہیں اور اس مسجد میں لائبریری، مدرسہ، اور بعض اشیاء کے بنانے کی ضرورت ہے لہٰذا اس مسجد کی انتظامیہ کے بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پہلی مذکورہ مسجد کی انتظامیہ سے کچھ مال لے لیں لیکن اس مسجد کی انتظامیہ کہتی ہے کہ یہ مال تو اسی مسجد کے لئے اکٹھا کیا گیا تھا اب اگر شیخ عبدالعزیز بن باز فتویٰ دے دیں کہ یہ مال دوسری مسجد پر خرچ کرنا جائز ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا، براہ کرم رہنمائی فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر وہ پہلی مسجد مکمل ہو گئی ہے جس کے لئے مال جمع کیا گیا تھا اور وہاں اب مال خرچ کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی تو زائد مال کو دیگر مساجد کی تعمیر یا ان میں لائبریریوں اور پانی کے نظام یا اس طرح کی دیگر ضروریات کے لئے خرچ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اہل علم نے کتاب الوقف میں واضح فرمایا ہے کیونکہ ان اشیاء کا تعلق بھی اسی مسجد ہی سے ہوتا ہے جس کے لئے عطیہ دیا گیا ہوتا ہے اور عطیہ دینے والوں کا مقصد بھی اس مسجد ہی سے ہوتا ہے جس کے لئے عطیہ دیا گیا ہوتا ہے اور عطیہ دینے والوں کا مقصد بھی اللہ تعالی کے گھروں میں سے کسی گھر کی تعمیر میں حصہ لینا ہوتا ہے، لہٰذا جو مال ایک مسجد سے بچ جائے اسے دوسری مسجد پر خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی ضرورت والی مسجد موجود نہ ہو تو زائد مال کو مسلمانوں کے مفاد عامہ مثلاً مدارس اور سرائے وغیرہ پر خرچ کردیا جائے یا فقراء وغیرہ میں صدقہ کردیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب