سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) وسیلے کے احکام

  • 947
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3252

سوال

(92) وسیلے کے احکام

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وسیلے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ بہت اہم سوال ہے، اس بناء پر ہم چاہتے ہیں کہ قدرے تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیں ’’تَوَسُّل‘‘ فعل تَوَسَّل یَتَوسَّلُ  کا مصدر ہے، جس کے معنی ایسا وسیلہ اختیار کرنے کے ہیں جو مقصود تک پہنچا دے۔ گویا کہ اس کا اصل معنی منزل مقصود تک پہنچنے کو طلب کرنا ہے۔ توسل کی دو قسمیں ہیں:

 ا       صحیح وسیلہ: ایسا صحیح وسیلہ اختیار کرنا جو مطلوب تک پہنچا دے، اس کی کئی صورتیں ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

۱۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ وسیلہ پکڑنا: اس کی دو صورتیں ہیں:

٭           عمومی طور پر جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں غم و فکر کے دور کرنے کی یہ دعا ء  میں واردہواہے:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی عَبْدُك ،َابْنُ عَبْدِك ،َابْنُ أَمَتِك،َ نَاصِيَتِی بِيَدِك مَاضٍ فِیَّ حُکْمُك عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُك أَسْأَلُك اللهمَ بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَك،أو أنزلته فی کتابك،َ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِتك أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِی عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَك أن تجعل القرآن ربيع قلبی َََ۔۔۔۔۔۔َ»الخ (مسند احمد: ۳۹۱/۱)

’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، تیری باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم چلتا ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ انصاف پر مبنی ہے، میں تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات پاک کا نام رکھا ہے یا جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی سکھایا ہے یا جسے تو نے علم غیب میں اپنے ہی پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کریم کو میرے لئے بہاردل بنادے۔‘‘

اس دعا میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو بطور وسیلہ اختیار کیا گیا ہے:

(اَسْئَلُك بِکُلِّ اسْمٍ هُوَ لَك سَمَّيْتَ بِه نَفْسَك)

’’میں تجھ سے تیرے ہر اس اسم پاک کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو تیرا نام ہے اور جس سے تو نے اپنی ذات گرامی کو موسوم کیا ہے۔‘‘

٭           خصوصی طور پر وہ بھی اس طرح کہ انسان اپنی کسی خاص حاجت کے لیے اللہ تعالیٰ کے کسی ایسے خاص اسم پاک کے وسیلے کو اختیار کرے جو اس حاجت کے مناسب حال ہو جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جسے میں نماز میں مانگا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا مانگا کرو:

«اَللّٰهُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِيرًا وَّلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِك وَارْحَمْنِی إِنَّك أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمُ»(صحیح البخاري، الاذان، باب الدعاء قبل السلام، ح: ۸۳۴ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب الدعوات والتعوذ، ح: ۲۷۰۵)

’’اے اللہ! بے شک میں نے اپنی جان پر حدسے زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پس تو اپنی خاص مغفرت سے میرے سارے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پررحم فرما، بے شک تو ہی(غفور) یعنی حدسے زیادہ مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم وکرم کا معاملہ فرمانے والا ہے۔‘‘

اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو ایسے پاک ناموں کے وسیلے کے ساتھ مغفرت و رحمت کو طلب کیا گیا ہے جو اس مطلوب کے مناسب حال ہیں اور وہ ہیں ’’غفور‘‘ اور ’’رحیم‘‘۔

وسیلہ کی یہ قسم حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے:

﴿وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنى فَادعوهُ بِها...﴿١٨٠﴾... سورة الأعراف

’’اور اللہ کے لئے (أسماء حسنی) ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘

یہاں پکارنے کا لفظ دعا کرنے اور عبادت وریاضت کرنے میں سے دونوں معنوں کو شامل ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ وسیلہ: اسماء کے ساتھ وسیلے کی طرح اس کی بھی دو قسمیں ہیں:

٭           عمومی طور پر، مثلاً: آپ یہ کہیں کہ ’’اے اللہ! میں تیرے اسمائے حسنیٰ اور صفات أعلیٰ کے وسیلے سے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں‘‘ اور پھر اس کے بعد اپنے مطلوب کو ذکر کریں۔

٭           خصوصی طور پر، یہ کہ اپنے خاص مطلوب کے لیے کسی مخصوص اور معین صفت کے وسیلے سے دعا کریں، جیسا کہ حدیث میں یہ دعا آتی ہے:

«اَللّٰهُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَيْبِ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْيِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِی»(سنن النسائی، السهو، باب نوع آخر من الدعاء ح:۱۳۰۶)

’’اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور مخلوق پر قدرت کے وسیلے سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم کے مطابق میرے لیے مرنا بہتر ہو تو تومجھے وفات عطاء فرمادے۔‘‘

اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم وقدرت کے وسیلے سے دعا کی گئی ہے اور یہ دونوں صفات مطلوب کے مناسب حال ہیں۔

اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ کسی صفت فعل کا وسیلہ اختیار کیا جائے مثلاً: (اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاهِيْمَ) ’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی تھی۔‘‘

۳۔ اللہ عزوجل کی ذات گرامی پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان کا وسیلہ: مثلاً: یوں کہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لایا ہوں، تو مجھے بخش دے یا مجھے اس کام کی توفیق عطا فرما دے۔‘‘ یا یہ کہے کہ ’’اے اللہ! میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لانے کے وسیلے سے تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں۔‘‘ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں بھی وسیلے کی یہی صورت مذکور ہے:

﴿إِنَّ فى خَلقِ السَّمـوتِ وَالأَرضِ وَاختِلـفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ لَءايـتٍ لِأُولِى الأَلبـبِ ﴿١٩٠ الَّذينَ يَذكُرونَ اللَّهَ قِيـمًا وَقُعودًا وَعَلى جُنوبِهِم وَيَتَفَكَّرونَ فى خَلقِ السَّمـوتِ وَالأَرضِ رَبَّنا ما خَلَقتَ هـذا بـطِلًا سُبحـنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿١٩١ رَبَّنا إِنَّكَ مَن تُدخِلِ النّارَ فَقَد أَخزَيتَهُ وَما لِلظّـلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿١٩٢ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعنا مُنادِيًا يُنادى لِلإيمـنِ أَن ءامِنوا بِرَبِّكُم فَـٔامَنّا رَبَّنا فَاغفِر لَنا ذُنوبَنا وَكَفِّر عَنّا سَيِّـٔاتِنا وَتَوَفَّنا مَعَ الأَبرارِ ﴿١٩٣﴾... سورة آل عمران

بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں، جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار (تدبر وتفکر)کرتے ہیں (وہ کہتے ہیں:) اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، پس تو ہمیں آگ(جہنم) کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرمادے اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔‘‘

اس آیت میں عقل والوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر اپنے ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کی کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے، ان کی خطاؤں سے درگذر کا معاملہ فرما ئے اور انہیں اپنے نیک بندوں کے ساتھ دنیا سے اٹھائے۔

۴۔ عمل صالح کا وسیلہ: جیسا کہ ان تین لوگوں کا واقعہ ہے جو رات بسر کرنے کے لیے ایک غار میں آگئے تھے اور غار کے منہ پر ایک بھاری پتھر گر گیا تھا جسے وہ دور ہٹانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، پھر ان میں سے ہر ایک نے اپنے عمل صالح کا وسیلہ پیش کیا تھا، ان میں سے ایک نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کے عمل صالح کا، دوسرے نے اپنی عفت وپاک دامنی کا اور تیسرے نے اپنے مزدور کو پوری پوری مزدوری دینے کا وسیلہ پیش کیا تھا۔ بہرحال ان میں سے ہر ایک نے اپنے عمل صالح کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اے اللہ! اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو تو ہماری اس مشکل کو دور فرما دے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ اس سے وہ بھاری پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا تھا۔(صحیح البخاري، البیوع، باب اذا اشتری شیئا لغیرہ بغیر اذنه فرضی حدیث: ۲۲۱۵)

 چنانچہ یہ ہے عمل صالح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ اختیار کرنے کی مثال۔

۵۔ اپنی عاجزی اور حالت زار کا وسیلہ پکڑنا: اپنے حال کو ذکر کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرے، یعنی اپنی حاجت وضرورت کو بیان کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے اپنی حالت کو ذکر کرتے ہوئے یہ دعا کی تھی:

﴿رَبِّ إِنّى لِما أَنزَلتَ إِلَىَّ مِن خَيرٍ فَقيرٌ ﴿٢٤﴾... سورة القصص

’’اے میرے پروردگار! بے شک تو میری طرف جو بھی خیر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں۔‘‘

اپنے حال کا ذکر کر کے انہوں نے وسیلہ پیش کیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمت کو نازل فرما دے۔ حضرت زکریا علیہ السلام  کی یہ دعا بھی اسی اسلوب میں ہے:

﴿قالَ رَبِّ إِنّى وَهَنَ العَظمُ مِنّى وَاشتَعَلَ الرَّأسُ شَيبًا وَلَم أَكُن بِدُعائِكَ رَبِّ شَقِيًّا ﴿٤ ... سورة مريم

’’انہوں نے کہا: اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں (بڑھاپے کے سبب) کمزور ہوگئی ہیں اور میرا سر بڑھاپے (کی سفیدی) سے شعلہ مارنے لگا ہے اور اے میرے پروردگار! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘

وسیلے کی یہ تمام قسمیں جائز ہیں کیونکہ حصول مقصود کے لیے ان میں جن اسباب کو اختیار کیا گیا ہے وہ درست ہیں۔

۶۔ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ: اللہ تعالیٰ کی طرف کسی ایسے نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ اختیار کیا جائے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عام اور خاص ہر قسم کی دعا کے لیے درخواست کیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث ہے: ’’ایک شخص جمعے کے دن اس وقت مسجد نبوی میں داخل ہوا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مال ہلاک ہوگئے اور رستے منقطع ہوگئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور یہ دعا کی: (اَللّٰهُمَّ اَغِثْنَا) ’’اے اللہ! ہمیں بارش سے نوازدے۔‘‘ آپ نے یہ دعا تین بار فرمائی اور جب آپ خطبہ مکمل فرمانے کے بعد منبر سے اترے تو آپ کی ڈاڑھی مبارک سے بارش کے قطرے گر رہے تھے پھر پورا ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی اسی طرح دوسرے جمعے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو اس شخص نے یا کسی اور نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پانی سے مال ومویشی غرق ہوگئے اور گھر منہدم ہوگئے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب وہ ہم سے بارش کو روک دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی: (اَللّٰهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا) ’’اے اللہ! (بارش کو) ہمارے گرد وپیش لے جا اور اب ہم پر نہ برسا۔‘‘ آپ یہ دعا فرماتے ہوئے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کرتے بادل چھٹ جاتا حتیٰ کہ لوگ مسجد سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے۔‘‘(صحیح البخاري، الاستسقاء باب الاستسقاء فی المسجد الجامع، حدیث: ۱۰۱۴ وصحیح مسلم، صلاة الاستسقاء باب الدعا ء فی الاستسقاء، حدیث: ۸۹۷)

اسی طرح بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے بطور خاص دعا فرمائیں، مثلاً: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد جنت میں کسی حساب وعذاب کے بغیر داخل ہوں گے  یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرواتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں۔

اسی طرح بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے بطور خاص دعا فرمائیں، مثلاً: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد جنت میں کسی حساب وکتاب ا ورعذاب وعقاب کے بغیر داخل ہوں گے  یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کرواتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں، نہ بدشگونی سے کام لیتے ہیں اور اپنے رب کریم ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں، تو عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ  نے کھڑے ہو کر عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے بنا دے۔‘‘ آپ نے فرمایا: (اَنْتَ مِنْہُمْ) ’’تم انہی میں سے ہو۔‘‘(صحیح البخاري، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… حدیث: ۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنة بغیر حساب، حدیث: ۲۲۰ واللفظ له)

تو یہ بھی جائز وسیلے کی ایک صورت ہے کہ انسان اس شخص سے دعا کی درخواست کرے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو اور سائل کو چاہیے کہ اس عمل سے اس کا ارادہ اپنے آپ کو اور اپنے اس بھائی کو نفع پہنچانا ہو، جس سے اس نے دعا کا مطالبہ کیا ہے، یعنی وہ صرف اپنے ہی لیے دعا کا خواستگار نہ ہو کیونکہ جب آپ کا ارادہ یہ ہوگا کہ آپ کے بھائی کو فائدہ پہنچے اور آپ کو بھی تو یہ آپ کی طرف سے بھائی کے ساتھ احسان ہو جائے گا۔ اس لیے جب کوئی انسان غائبانہ طور پر اپنے بھائی کے لیے دعا کرتاہے تو فرشتہ کہتا ہے: (آمِيْنَ وَلَك بِمِثْلٍ)’’اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کو قبول فرمائے اور آپ کو بھی اسی طرح عطا فرمائے۔‘‘سنن ابی داود، الوتر، باب الدعا بظهر الغیب، حدیث: ۱۵۳۴۔

ب:          غیر صحیح وسیلہ: اس کی صورت یہ ہے کہ انسان تعالیٰ کی طرف کسی ایسی چیز کا وسیلہ پیش کرے جو سرے سے وسیلہ ہے ہی نہ ہو، یعنی جس کا وسیلہ ہونا شریعت میں ثابت ہی نہ ہو کیونکہ اس طرح کا وسیلہ لغو، باطل ہے اور معقول ومنقول کے خلاف ہواکرتا ہے، مثلاً: کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف کسی میت کی دعا کا وسیلہ پیش کرے، یعنی وہ اس میت سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو یہ صحیح اور شرعی وسیلہ نہیں بلکہ یہ تووسیلہ اختیارکرنے والے انسان کی بے وقوفی اور حماقت کی دلیل ہے کہ وہ میت سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے  کیونکہ جب کوئی انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، لہٰذا کسی انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا کرے حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی وفات کے بعد کسی کے لیے دعا فرمائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی دعا کے وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش نہیں کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو انہوں نے اس طرح دعا کی:

«اَللّٰهُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِيْنَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا»(صحیح البخاري، الاستسقاء، باب سدوال الناس الامام اذا قحطوا، ح:۱۰۱۰)

’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے (جب وہ زندہ ہم میں موجود تھے) تو تو ہمیں بارش سے نوازدیاکرتا تھا۔ اب (جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود نہیں ہیں) تیرے نبی کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) بطور وسیلہ پیش کر کے دعا کر رہے ہیں، اب تو ہمیں بارش عطا فرما دے۔‘‘

اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے دعا فرمائی۔ اگر میت سے دعا کا مطالبہ کرنا صحیح ہوتا اور یہ بنفسہ صحیح وسیلہ ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  اور آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ ہی سے دعا کا مطالبہ کرتے کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ   کی دعا کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی قبولیت کی بہرحال زیادہ امید تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی میت کی دعا کے وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی طرف پیش کرنا ایک باطل وسیلہ ہے جو قطعاً حلال اور جائز نہیں۔

اس طرح غیر صحیح وسیلے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ (مرتبہ) کے وسیلے کو پیش کرے کیونکہ دعا کرنے والے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ مفید نہیں ہے۔ جاہ کا فائدہ تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ہے لہٰذا دعا کرنے والے کو اس کا فائدہ نہیں مل سکتا کہ وہ جاہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلے کے طور پر پیش کرے اور یہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ توسل صحیح اور فائدہ مند وسیلہ اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت عظیم الشان جاہ (مرتبہ) حاصل ہے تو آپ کو اس سے کیا فائدہ؟

اگر آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صحیح وسیلہ پیش کرنا چاہتے ہیں تو یوں کہیں کہ اے اللہ! میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں یا یوں کہیے کہ اے اللہ! مجھے آپ کے رسول سے جو محبت ہے، میں اس کے واسطہ سے تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں، تو اس طرح کا وسیلہ اختیار کرنا صحیح اور سودمند ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ166

محدث فتویٰ

تبصرے