سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) متولی دولت مند ہو تو اس کے لئے وقف کی آمدنی حلال نہیں

  • 9466
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1106

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری نانی کا ایک مکان ہے، وفات کے وقت انہوں نے میری والدہ کو اس کا وکیل مقرر کردیا کہ وہ اس کی آمدنی سے ہر سال ان کی طرف سے قربانی کر دیا کرے لیکن مکان کی ویرانی کے سبب والدہ کی زندگی میں کبھی قربانی کی جاتی کبھی نہ کی جاتی، جب میری والدہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت کی کہ میں اس مکان کی مرمت کرا دوں، میں نے ان کے ورثاء سے بھی اجازت لے لی کہ وہ ترکہ میں سے اس کی مرمت کے لئے خرچہ دیں انہوں نے اس کی اجازت دے دی، والدہ نے بھی ترکہ میں بارہ سو ریال چھوڑے تو میں وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی طرف سے بھی رقم خرچ کر کے اس گھر کی اس طرح مرمت کرا دی کہ وہ آباد و شاد گھروں کی طرح ہو گیا نیز اب اس کی آمدنی ایک قربانی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ میں نے اس مردہ وقف کو زندہ کیا تو کیا میرے لئے اس کا استعمال حلال ہے؟ میری نانی کا ایک اور ویران گھر بھی ہے، کیا اس کی آمدنی کو اس ویران گھر کی مرمت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ دیکھتے ہوئے کہ آپ کی والدہ نے آپ کی نانی کے اس گھر کی مرمت کرانے کی آپ کو وصیت کی تھی اور آپ کی نانی نے ان کی طرف سے قربانی کرنے کے لئے آپ کی والدہ کو اپنا وکیل مقرر کیا تھا اور آپ نے ورثاء کی اجازت سے ان کے ترکہ سے ، اپنی والدہ کی چھوڑی ہوئی  رقم اپنی طرف سے خرچ کر ے اس مکان کی مرمت کرا دی، ورثاء نے اس سلسلے میں جو کچھ خرچ کیا وہ ان کی طرف سے مالکہ مکان کے لئے صدقہ ہے، آپ نے مکان پر جو کچھ خرچ کیا وہ اپنی والدہ کی وصیت پر عمل اور نانی کے لئے صدقہ ہے، اس مکان کی آمدنی اس کی اصلاح اور اس کے متعلق کی گئی وصیت پرخرچ  ہو گی اور جو اس سے بچ جائے وہ شرعی وکیل کی رائے کے مطابق نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کیا جائے گا، دوسرے فقراء کی نسبت میت کے فقیر رشتہ دار زیادہ مستحق ہیں اور اگر ورثاء کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف ہو تو اسے دور کرنے کے لئے شرعی عدالت کی طرف رجوع کیا جائے آپ کی نانی کا دوسرا ویران گھر اگر اسی گھر کے تابع ہے تو اس کا حکم ہم آپ کو بتا چکے ہیں اور اگر اس گھر کا تعلق ترکہ سے ہے اور وہ وقف نہیں ہے تو یہ معاملہ وارثوں کی رائے پر منحصر ہے پس اگر وہ اسے بھی وقف کر کے تابع کرنا چاہیں تو اس کا حکم بھی وہی ہو گا جو پہلے وقف گھر کا ہے اور اگر وہ اسے وقف کرنے کی اجازت نہ دیں تو پھر یہ وارثوں میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تقسیم ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص38

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ