سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ’ نور من نور اللہ‘ اور غیب دانی کا عقیدہ

  • 946
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 3571

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ آپ بشر نہیں بلکہ ’’نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ‘‘  ہیں اور غیب جانتے ہیں۔ پھر وہ آپ سے فریاد کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ آپ نفع ونقصان کے مالک ہیں، تو اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح کے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ راہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر سے نوازے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ ’’نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ‘‘ ہیں اور آپ غیب جانتے ہیں، تو وہ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کفر کرنے والا گردانا جائے گا ۔ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دشمنوں میں سے ہے، اس کا شمار دوستوں میں سے نہیں، کیونکہ اس کا یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کفر ہے اس عقیدہ کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر مشتمل ہونے کے دلائل یہ ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم...﴿١١٠﴾... سورة الكهف

’’کہہ دو کہ میں تمہاری طرح تمہارے ہم مثل ایک بشر ہوں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ...﴿٦٥﴾... سورة النمل

’’کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں، اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحى إِلَىَّ...﴿٥٠﴾... سورة الأنعام

’’کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ﴿١٨٨﴾... سورة الأعراف

’’کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو مومنوں کو ڈرانے اور خوش خبری سنانے والا ہوں۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَاِذَا نَسِيْتُ فَذَکِّرُوْنِیْ»(صحیح البخاری، الصلاة، باب التوجه نحو القبلة… ح:۴۰۱ وصحیح مسلم، المساجد، باب السہو فی الصلاة والسجود له، ح:۵۷۲)

’’میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، میں بھی تمہاری طرح بھول جاتا ہوں، پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔‘‘

جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے استغاثہ کرے کہ آپ نفع ونقصان کے مالک ہیں، تو وہ بھی کافر ومشرک ہے اور اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ ﴿٦٠﴾... سورة غافر

’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿قُل إِنّى لا أَملِكُ لَكُم ضَرًّا وَلا رَشَدًا ﴿٢١ قُل إِنّى لَن يُجيرَنى مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا ﴿٢٢﴾... سورة الجن

’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا، (یہ بھی) کہہ دو کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں پاتا۔‘‘

ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں سے فرمایا:

«لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَيْئًا»(صحیح البخاری، الوصایا، باب هل یدخل النساء والولد فی الاقارب، ح:۲۷۵۳، وصحیح مسلم، الایمان، باب قوله تعالیٰ: ﴿وانذر عشیرتک الاقربین﴾ ح:۲۰۶)

’’میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔‘‘

آپ نے یہ بات اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ سے بھی فرمائی تھی۔اس طرح کا عقیدہ رکھنے والے شخص کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، نہ نماز جائز ہے اور نہ مسلمانوں کے لیے اس طرح کے کسی شخص کو امام بنانا حلال ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ97

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ