سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز جیسے اعمال کے لیے معاہدہ اجرت

  • 9431
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 990

سوال

نماز جیسے اعمال کے لیے معاہدہ اجرت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا جو سخاوت اور حسن اخلاق کا تو مالک تھا لیکن وہ نہ نماز پڑھتا تھا اور نہ روزہ رکھتا تھا تو اس کی وفات کے بعد اس کے اہل خانہ نے ایک شخص کو مال دے دیا تاکہ وہ اس کی طرف سے فوت شدہ نمازیں پڑھے اور روزے رکھے تو کیا یہ شرعا صحیح ہے؟ اس صورت میں مال لینے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ فوت ہونے والا شخص جو نماز اور روزہ ادا نہیں کرتا تھا، حالت کفر میں فوت ہوا ہے۔ والعیاذباللہ۔ کیونکہ اہل علم کے راجح قول کے مطابق جس کی نصوص کتاب و سنت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال سے بھی تائید ہوتی ہے، تارک نماز کافر ہے اور جو نماز کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے خواہ وہ نماز پڑھتا بھی ہو۔ نصوص ترک کے بارے میں وارد ہیں، انکار کے بارے میں نہیں، لہذا یہ ممکن نہیں کہ اس وصف کو ہم لغو قرار دیں، شریعت نے جس کا اعتبار کیا ہے، یا ہم انہیں انکار پر محمول کریں جیسا کہ بعض اہل علم نے کیا ہے اور تارک نماز کی تکفیر کے بارے میں جو نصوص وارد ہیں، ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ان سے مراد نماز کا منکر ہے لیکن اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ ہم اس وصف کو لغو قرار دے رہے ہیں جس پر شریعت نے حکم لگایا ہے اور اس وصف کا اعتبار کر رہے ہیں جس کا شریعت نے ذکر ہی نہیں کیا، نیز اس میں تناقض بھی ہے کیونکہ نماز کا منکر تو کافر ہے خواہ وہ نماز پڑحتا بھی ہو، خواہ وہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز پڑحتا ہو اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نماز پنجگانہ فرض نہیں ہے اور وہ اسے محض نفل عبادت کے طور پر ادا کر رہا ہے تو وہ کافر ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ تارک نماز کے کفر کے بارے میں وارد نصوص کو انکار نماز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔

اسی طرح اس آدمی کے اہل خانہ نے اس کی نمازوں اور روزوں کے لیے جو مال خرچ کیا ہے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اعمال قربت میں سے کسی عمل کے لیے عقد اجرت صحیح نہیں ہے۔ لہذا یہ صحیح نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ تم میری طرف سے نماز روزہ ادا کر دو میں تمہیں اس کی اجرت دے دوں گا ہاں البتہ حج کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن یہ اس کی تفصیل کا وقت نہیں ہے لہذا اس شخص نے جو یہ مال لیا ہے تو یہ ناحق لیا ہے، اس کے لیے واجب ہے کہ یہ مال انہیں واپس لوٹا دے۔ اس نے جو نمازیں پڑھی ہیں، ان سے اس میت کو کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ وہ غیر مسلم ہے اور غیر مسلم کو کوئی عمل نفع نہیں دیتا حتیٰ کہ اس کا اپنا کوئی عمل بھی نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـٰتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَر‌وا بِاللَّهِ وَبِرَ‌سولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلو‌ٰةَ إِلّا وَهُم كُسالىٰ وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـٰرِ‌هونَ ﴿٥٤﴾... سورة التوبة

"اور ان کے خرچ (اموال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی سوا اس کے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز کو آتے ہیں تو سست و کاہل ہو کر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔"

نیز فرمایا:

﴿وَقَدِمنا إِلىٰ ما عَمِلوا مِن عَمَلٍ فَجَعَلنـٰهُ هَباءً مَنثورً‌ا ﴿٢٣﴾... سورة الفرقان

"اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کر دیں گے۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص546

محدث فتویٰ

تبصرے