سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) نعت خوانی بطور پیشہ

  • 943
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1360

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کو تجارت بنا لینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (یعنی نعت فروشی کے بارے میں کیا حکم ہے)۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے اور یہ جاننا واجب ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

 درجہ غلو کو پہنچے بغیر مدح کی جائے ایسی مدح میں کوئی حرج نہیں، جس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحق ہیں، یعنی ایسی مدح میں کوئی مضائقہ نہیں جس میں آپ کے اخلاق کریمانہ اور آپ کی سیرت طیبہ کو بیان کرتے ہوئے آپ کے کامل اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کیا جائے۔

دوسری قسم:

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مدح جس میں مدح کرنے والا اس غلو تک پہنچ جائے جس سے منع کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:

«لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی المسيح ابْنَ مَرْيَمَ، فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُ، فَقُولُوا، عَبْدُاللّٰهِ وَرَسُوْلُهُ»(صحيح البخاري، احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: ﴿واذکر فی الکتاب مریم…﴾، ح: ۳۴۴۵)

’’میری تعریف میں اس طرح غلو سے کام نہ لینا جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کی تعریف میں غلو سے کام لیا، میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘

اگر کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کرتے ہوئے یہ کہے کہ آپ فریاد کرنے والوں کے فریاد رس ہیں، مجبور ومضطر لوگوں کی دعا قبول کرنے والے ہیں، آپ دنیا وآخرت کے مالک ہیں یا آپ غیب جانتے ہیں تو اس طرح کی مدح حرام ہے۔ اس طرح کی مدح سے بسا اوقات انسان شرک اکبر کا مرتکب ہو کر ملت اسلامیہ سے ہی خارج ہو جاتا ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی مدح میں ایسا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے جو درجہ غلو تک پہنچ جائے کیونکہ اس سے تو آپ نے خود ہمیں منع فرما دیا ہے۔

اب رہا سوال جائز مدح کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کا، تو یہ پیشہ اختیارکرنا بھی حرام ہے کیونکہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم اخلاق، صفات حمیدہ اور سیرت طیبہ کے ذکر پر مشتمل ایسی مدح جس کے آپ مستحق ہیں، عبادت وہ قسم ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے اور جو چیزعبادت ہو اسے دنیا کمانے کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مَن كانَ يُريدُ الحَيوةَ الدُّنيا وَزينَتَها نُوَفِّ إِلَيهِم أَعمـلَهُم فيها وَهُم فيها لا يُبخَسونَ ﴿١٥ أُولـئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبـطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٦﴾... سورة هود

’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد ہوگئے اور جو کچھ وہ کرتے رہے، وہ سب ضائع اور اکارت ہوگیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ96

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ