کیا تنگ دست کو مہلت دینے کے بارے میں اسلام نے شہری اور تجارتی معاملات میں کوئی تفریق کی ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اگر تم توبہ کر لو گے تو تمہیں اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان ہو اور نہ تمہارا نقصان، اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش ( کے حاصل ہونے) تک مہلت دو۔"
یہ آیات احکام ربا کے سیاق میں ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے اس صاحب سود کو حکم دیا ہے کہ جو کسی فقیر کے ذمہ ہو اور اس کی مدت طویل ہو گئی ہو جس کی وجہ سے سود دگنا، چوگنا ہو رہا ہو تو اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ سود لینے سے توبہ کر لے اور اپنے اصل مال کے مطالبہ ہی پر اکتفا کرے خواہ وہ کم ہی ہو اور اسی سے وہ اس پر یا اپنے آپ پر ثلم سے بچ جائے گا۔ اور اسے حکم دیا ہے کہ مقروض اگر مفلس اور فقیر ہو تو اپنے اصلی سرمایہ پر اکتفا کرے نیز اسے مہلت دے اور اپنے مال کی واپسی کا سختی سے مطالبہ نہ کرے تو یہ حکم ہر قسم کے مقروض کے لیے ہے خواہ اس کے ذمہ تجارت کا قرض ہو یا ادھار لیا ہوا قرض یا کوئی مالی حق یا اھرت تو اس کی تنگ دستی کی وجہ سے مہلت دینا واجب ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اسے کشائش سے نواز دے۔ تنگ دست مقروض کو قید کرنا جائز ہے نہ اس پر تشدد کرنا جائز جیسا کہ فقہاء نے "باب الحجر" وغیرہ میں لکھا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب