جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ترقیاتی بینک ملک کے باشندوں کو مکانات بنانے کے لیے طویل مدت کے لیے قرضے دیتا ہے جنہیں پچیس سالوں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقروض فوت ہو جائے اور اس نے اپنے قرض کی ابھی صرف دو قسطیں ہی ادا کی ہوں اور اس کے بعد اس کے وارث باقی وسطوں کو ان کے اوقات مقررہ میں ادا کریں تو کیا اس سے میت بری الذمہ ہو جائے گی اور وہ اس وعید میں داخل نہ ہو گی جو اس حدیث میں ہے:
"مومن کی جان اس کے قرض کے ساتھ اس وقت تک معلو ہوتی ہے، جب تک کہ اسے ادا نہیں کر دیا جاتا ۔"
یا وہ تمام قسطوں کے ادا کرنے تک قرض کے ساتھ گروی رہے گی۔ امید ہے آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں گے؟
جب کوئی انسان فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ مدت مقررہ میں ادا کیا جانے والا قرض ہو تو اس کی مدت برقرار رہے گی، اور جب اسے وارث کے مطابق کوئی چیز رہن رکھ دیں تو امید ہے کہ ان شاءاللہ مقروض اس کی ذمہ داری سے بری ہو جائے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب