سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مقروض میت کب بری الذمہ ہو گی؟

  • 9423
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 921

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ترقیاتی بینک ملک کے باشندوں کو مکانات بنانے کے لیے طویل مدت کے لیے قرضے دیتا ہے جنہیں پچیس سالوں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقروض فوت ہو جائے اور اس نے اپنے قرض کی ابھی صرف دو قسطیں ہی ادا کی ہوں اور اس کے بعد اس کے وارث باقی وسطوں کو ان کے اوقات مقررہ میں ادا کریں تو کیا اس سے میت بری الذمہ ہو جائے گی اور وہ اس وعید میں داخل نہ ہو گی جو اس حدیث میں ہے:

(نفس المومن معلقة بدينه حتي يقضي عنه) (جامع الترمذي‘ الجنائز‘ باب ما جاء ان نفس المومن معلقة...الخ‘ ح: 1079)

"مومن کی جان اس کے قرض کے ساتھ اس وقت تک معلو ہوتی ہے، جب تک کہ اسے ادا نہیں کر دیا جاتا ۔"

یا وہ تمام قسطوں کے ادا کرنے تک قرض کے ساتھ گروی رہے گی۔ امید ہے آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی انسان فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ مدت مقررہ میں ادا کیا جانے والا قرض ہو تو اس کی مدت برقرار رہے گی، اور جب اسے وارث کے مطابق کوئی چیز رہن رکھ دیں تو امید ہے کہ ان شاءاللہ مقروض اس کی ذمہ داری سے بری  ہو جائے گا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص542

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ