سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ہر وہ قرض جو نفع کا باعث ہو وہ سود ہے

  • 9421
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 837

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس شخص کے قرض دینے کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی کو اس شرط پر مدت مقررہ کے لیے قرض دیتا ہے کہ وہ بھی اسی مدت کے لیے اتنی ہی رقم اسے بطور قرض دے گا؟ کیا یہ معاملہ اس حدیث کا مصداق ہے کہ ہر قرض جو نفع کا باعث ہے وہ سود ہے۔" لیکن یاد رہے اس نے زیادہ قرض لینے کی شرط عائد نہیں کی۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ قرض جائز نہیں اس لیے کہ قرض دہندہ نے بھی اتنیی ہی رقم قرض لینے کی شرط عائد کی ہے یہ عقد در عقد ہے اور ایک بیع میں دو بیعوں کے حکم میں ہے اور محض قرض دینے کے بجائے منفعت کی شرط ہے اور وہ یہ کہ وہ بھی اسے اتنی ہی رقم بطور قرض دے گا۔ اور علماء کا اجماع ہے کہ ہر وہ قرج جو منفعت زائدہ کی شرط کا متضمن ہو یا اس میں اتنی ہی مقدار میں قرض دینے کی شرط عائد کی گئی ہو تو وہ ربا ہے۔ یہ حدیث:

(كل قرض جر منفعة فهو ربا) (المطالب العالية: 1/411‘ ح: 1373 و ارواء الغليل 5/235‘ ح: 1398)

"ہر وہ قرض جو منفعت کا باعث ہو وہ سود ہے۔" ضعیف ہے،

لیکن حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت سے اس کے ہم معنی اقوال منقول ہیں کہ اگر قرض دیتے ہوئے نفع کی شرط عائد کی گئی ہو یا وہ حکم مشترط میں ہو یا قرض ہی کی شرط عائد کی گئی ہو تو یہ سود ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص541

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ