ایک آدمی نے مجھ سے تین سال پہلے قریبا پچاس ہزار ریال قرض لیے اور کہا کہ وہ چھ ماہ کے اندر واپس کر دے گا لیکن اس نے ابھی تک یہ قرض واپس نہیں کیا، اور اس سے وہ تجارت کر رہا ہے، تو کیا یہ جائز ہے کہ میں اس سے اپنے اصل سرمایہ سے زیادہ کا مطالبہ کروں یا یہ ناجائز ہے؟
آپ کو صرف اپنے اصل سرمایہ ہی کا ممطالبہ کرنا چاہیے، اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔ ہاں البتہ اگر وہ از خود آپ کے حق سے زیادہ اپنی طرف سے دے دے بشرطیکہ آپ اس کا نہ مطالبہ کریں اور نہ اسے اس کا پابند کریں تو یہ اس کے حق میں افضل اور احسان ہے تاکہ وہ اس صحیح حدیث پر عمل کر سکے:
"بے شک بہترین لوگ وہ ہیں جو احسن انداز میں قرض ادا کریں۔"
اور اس طرح اسے آپ کے احسان کا بدلہ چکانے کا موقع بھی مل جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"جو شخص تم سے نیکی کرے تو اسے اس کی نیکی کا بدلہ دو اور اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کو کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اس قدر کثرت سے دعا کرو حتیٰ کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب