سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مال حرام سے قرض لینا

  • 9418
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1152

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی ایسے شخص سے قرض لینا جائز ہے، جس کا کاروبار حرام ہو اور وہ حرام لین دین کرتا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے بھائی! اس طرح کے آدمی سے نہ قرض لینا چاہیے اور نہ کوئی اور معاملہ کرنا چاہیے۔ جب تک اس کے معاملات حرام ہوں، وہ سودی کاروبار کرتا ہو یا کوئی اور حرام معاملہ کرتا ہو تو اس سے لین دین نہ کریں اور نہ اس سے قرض لیں بلکہ واجب ہے کہ ایسے شخص سے دور ہو جائیں، اور اگر وہ حرام اور غیر حرام معاملہ کرتا ہو یعنی اس کے کاروبار میں پاک اور ناپاک کی آمیزش ہو تو پھر اس سے معاملہ کرنے میں اگرچہ کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ اس صورت میں بھی احتیاط کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(دع ما يربك الي مالا يريبك) (جامع الترمذي‘ صفة القيامة‘ باب : 60‘‘ ح: 2518وسنن النسائي‘ ح: 5714)

"اس کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کو لے لو جس میں شک نہ ہو۔"

نیز آپ نے فرمایا ہے:

(من اتقي الشهبات استبرا لدنه وعرضه ) (صحيح البخاري‘ الايمان‘ باب فضل من استبرا لدينه‘ ح: 52 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب اخذ الحلال وترك الشهبات‘ ح: 1599 واللفظ له)

"جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔"

نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(الاثم ما حاك في نفسك وكرهت ان يطلع عليه الناس) (صحيح مسلم‘ البر والصلة‘ باب تفسير البر والاثم‘ ح: 2553)

"گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند کرو کہ لوگوں کو اس کی اطلاع ہو۔"

مومن تو مشتبہات سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ لہذا جب آپ کو معلوم ہو کہ اس کے معاملات حرام ہیں یا یہ حرام کاروبار کرتا ہے تو ایسے شخص سے نہ کوئی معاملہ کریں اور نہ اس سے قرض لیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص539

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ