میرے ایک دینی بھائی (حسن۔ م ) نے مجھے دو ہزار تونسی دینار قرض دئیے اور اس سلسلہ میں ہم نے جو تحریر لکھی اس میں اس رقم کو جرمن کرنسی میں لکھا۔ قرض کی مدت۔۔۔ایک سال۔۔۔گزرنے کے بعد جرمن کرنسی کی قیمت بڑھ گئی جس کی وجہ سے مجھے قرض لی ہوئی رقم سے تین سو دینار زیادہ دینا پڑے، تو کیا مجھے قرض دینے والے کے لیے یہ زیادہ رقم لینا جائز ہے یا یہ سود شمار ہو گا؟ خصوصا جب کہ قرض دہندہ کی خواہش یہی ہے کہ اسے جرمن کرنسی میں قرض ادا کیا جائے تاکہ وہ جرمن سے گاڑی خرید سکے؟
قرض دہندہ (حسن۔ م) کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس رقم جو اس نے قرض دی ہے یعنی دو ہزار تونسی دینار سے زیادہ وصول کرے، ہاں البتہ اگر آپ اجازت دے دیں تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"بے شک بہترین لوگ وہ ہیں جو قرض ادا کرنے میں اچھے ہوں۔"
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے ہے:
"اچھے لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو قرض ادا کرنے میں اچھے ہوں۔"
مذکورہ معاہدہ پر عمل نہیں ہو گا اور نہ اس سے کچھ لازم آتا ہے کیونکہ یہ ایک غیر شرعی معاہدہ ہے۔ نصوص شرعیہ سے یہ ثابت ہے کہ قرض کی بیع جائز نہیں الا یہ کہ قرض ادا کرتے وقت اتنی رقم ہی ادا کی جائے جتنی کہ بطور قرض لی گئی تھی۔ ہاں البتہ اگر مقروض ازراہ احسان کچھ زائد ادا کرنا چاہے تو وہ ادا کر سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب