ایک آدمی نے ترقیاتی بینک سے عمارت بنانے کے لیے قرض لیا حالانکہ الحمدللہ اس کے مالی حالات اچھے ہیں۔ کچھ مدت تک تو یہ عمارت اسی طرح رہی اور پھر اس نے کرایہ پر دے دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرض لینے کے لیے اسے گناہ ہو گا؟ کیا اس عمارت کے کرایہ پر زکوٰۃ ہے؟
حکومت نے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے۔۔۔ یہ بینک کھولا ہے اور اس سے مقصود رہائش کی مشکلات کو حل کرنا اور بعض دوسری پریشانیوں کو دور کرنا ہے جو بعض اوقات پیش آتی ہیں۔ حکومت نے ملک کے ہر باشندے کو اجازت دی ہے کہ وہ معروف شروط کے ساتھ قرض لے سکتا ہے اور اس میں مالدار اور فقیر میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں کہ وہ عمارت کو اپنی رہائش کے لیے بنانا چاہتا ہے یا کرایہ پر دینے کے لیے۔ لہذا مذکورہ بالا صورت میں کوئی حرج نہیں، یہ تصرف ان شاءاللہ صحیح ہے۔ زکوٰۃ گھروں اور عمارتوں پر واجب نہیں ہے بلکہ کرایہ پر واجب ہے بشرطیکہ وہ مالک کے پاس ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے۔ اور اگر وہ کرایہ کی رقم کو خرچ کر لے یا اس کے ساتھ قرض ادا کر دے تو پھر اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب