میں ایک ملازم ہوں، میری تنخواہ 3048 ریال ہے۔ میں ایک سال سے شادی شدہ ہوں اور میرے ذمہ ترپن ہزار ریال قرض ہے۔ قرض دینے والے مجھ سے اکثر اپنے قرض کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں لیکن میرے پاس قرض ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں کسی ایسے بینک سے قرض لے لوں جو نفع پر قرض دیتا ہے۔ بینک جو قرض مجھے دے گا اس سے میرے ذمہ جو قرض ہے وہ آدھا بھی ادا نہیں ہو گا۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا؟
کسی بھی مسلمان کے لیے بینک سے یا کسی اور سے نفع کی شرط کے ساتھ قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بہت بڑا سود ہے، لہذا اسے چاہیے کہ وہ طلب رزق اور ادائے قرض کے لیے جائز اسباب اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ نے جن معاملات اور کمائی کے طریقوں کو مباح قرار دیا ہے وہ حرام سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔ قرض دینے والوں کو جب آپ کی تنگ دستی کا علم ہو تو انہیں چاہیے کہ آپ کو آسانی تک مہلت دیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو (اسے) کشائس (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو)، اور اگر (قرض) بخش دو تو وہ تمہارے لیے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔"
اور رسول اللہ "سونا سونے کے ساتھ، چاندی چاندی کے ساتھ، گندم گندم کے ساتھ، جو جو کے ساتھ، کھجور کھجور کے ساتھ اور نمک نمک کے ساتھ ایک جیسا، برابر برابر اور دست بدست ہو اور جب یہ اصناف مختلف ہو جائیں تو جس طرح چاہو بیع کرو بشرطیکہ سودا دست بدست ہو۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ تلے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔"
نیز فرمایا:
"جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب