سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سودی رقوم کو خیراتی سکیموں میں استعمال کرنا

  • 9405
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 816

سوال

سودی رقوم کو خیراتی سکیموں میں استعمال کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس کے باشندے غیر مسلم ہیں، اللہ تعالیٰ نے الحمدللہ اس ملک میں ہمیں خوش حالی سے نوازا جس کی وجہ سے ہم امریکی بینکوں میں اپنی رقوم محفوظ رکھنے کے لیے مجبور ہیں، لیکن ہم ان بینکوں سے اپنی رقوم پر سود نہیں لیتے اور وہ لوگ اس پر بہت خوش ہیں اور ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کے ان اموال کو عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت میں استعمال کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم ان رقوم سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں اورا نہیں مسلمان فقراء اور مساجد و مدارس پر کیوں نہ خرش کریں؟ اگر ان رقوم کو لے کر فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین اور ان کے وارثوں میں تقسیم کر دیا جائے تو کیا اس کی وجہ سے مسلمان قابل ملامت ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی بینکوں میں اپنے اموال کو رکھنا جائز نہیں ہے، خواہ یہ بینک مسلمانوں کے ہوں یا غیر مسلموں کے کیونکہ اس میں گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے، خواہ یہ اموال سود کے بغیر ہی رکھے جائیں لیکن اگر کوئی شخص سود کے بغیر محض حفاظت کے لیے رکھنے پر مجبور ہو تو ان شاءاللہ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَد فَصَّلَ لَكُم ما حَرَّ‌مَ عَلَيكُم إِلّا مَا اضطُرِ‌ر‌تُم إِلَيهِ...١١٩﴾... سورة الانعام

"جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ناچار ہو جاؤ۔"

سود لینے کی شرط کے ساتھ اگر ان رقوم کو بینکوں میں رکھا جائے تو پھر گناہ زیادہ ہو گا کیونکہ سود کبیرہ گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کتاب کریم میں بھی اور اپنے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بھی حرام قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اسے نیست و نابود کر کے رہے گا۔ اور جو شخص سودی لین دین سے باز نہ آئے وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتا ہے۔ مال دار لوگ اگر اپنے مال کو نیکی، احسان اور مجاہدین کی مدد کے لیے خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں اجر سے بھی نوازے گا اور خرچ کئے جانے والے مال کا نعم البدل بھی عطا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الَّذينَ يُنفِقونَ أَمو‌ٰلَهُم بِالَّيلِ وَالنَّهارِ‌ سِرًّ‌ا وَعَلانِيَةً فَلَهُم أَجرُ‌هُم عِندَ رَ‌بِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٢٧٤﴾... سورة البقرة

"جو لوگ اپنا مال رات اور دن اور پوشیدہ اور ظاہر (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہتے ہیں ان کا صلہ پروردگار کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ غم۔"

اور فرمایا:

﴿وَما أَنفَقتُم مِن شَىءٍ فَهُوَ يُخلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيرُ‌ الرّ‌ٰ‌زِقينَ ﴿٣٩﴾... سورة سبا

"اور تم جو چیز خرچ کرو گے وہ اس کا (تمہیں) عوض دے گا وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔"

یہ حکم زکوٰۃ اور غیر زکوٰۃ سب کے لیے عام ہے، اسی طرح صحیح حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ما نقصت صدقة من مال‘ وما زاد الله عبدا بعفو الا عزا‘ وما تواضع احد لله الا رفعه الله) (صحيح مسلم‘ البر والصلة‘ باب استحباب العفو والتواضع‘ ح: 2588)

"صدقہ۔ مال میں کچھ کمی واقع نہیں کرتا، معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں (کمی نہیں بلکہ) اضافہ ہی فرماتا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ (کی رضا جوئی) کے لیے تواضع اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اسے (ذلیل نہیں بلکہ) سر بلند ہی کرتا ہے۔"

نیز آپ نے فرمایا:

(ما من يوم يصبح العباد فيه الا ملكان ينزلان فيقول احدهما: اللهم اعط منفقا خلفا ويقول الآخر: اللهم اعط ممسكا تلفا) (صحيح البخاري‘ الزكاة‘ باب قول الله تعاليٰ (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَٱتَّقَىٰ)‘ ح: 1442 وصحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب في المنفق والممسك‘ ح: 1010)

"ہر روز دو فرشتے نازل ہوتے ہیں جن میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ عطا فرما اور دوسرا یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! (مال کو) روک رکھنے والے کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔"

نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے اور ضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں بہت سی آیات و احادیث ہیں۔ اگر کوئی مال دار شخص جہالت یا تسایل کی وجہ سے اپنے مال پر سود وصول کر لے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے رشد و ہدایت عطا فرما دے تو وہ اسے اپنے پاس رکھنے کے بجائے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کر دے کیونکہ سود جس مال میں بھی شامل ہو، اسے نیست و نابود کر دیتا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰا۟ وَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ...٢٧٦ ... سورة البقرة

"اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص525

محدث فتویٰ

تبصرے