سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بینکوں کے منافع کا خیراتی سکیموں میں استعمال

  • 9404
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 838

سوال

بینکوں کے منافع کا خیراتی سکیموں میں استعمال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ترکی کے باشندے ہیں اور سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور جیسا کہ آپ سے مخفی نہیں ہمارے ملک ترکی میں سیکولر ازم کو نظام حکومت کے طور پر اختیار کر لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں سودی نظام بری طرح پھیل چکا ہے حتیٰ کہ سود کی شرح پچاس فی صد سالانہ تک بھی پہنچ جاتی ہے، لیکن ہم ترکی میں اپنے اہل خانہ کو رقوم انہی بینکوں سے بھیجنے کے لیے مجبور ہیں جو کہ سود کا اصلی سرچشمہ ہیں۔ اسی طرح چوری ہو جانے، ضائع ہو جانے یا دیگر خطرات کی وجہ سے ہم بھی اپنی رقوم بینکوں میں رکھتے ہیں تو ان حالات کی وجہ سے ہم فتویٰ کے لیے دو اہم سوال آپ کی خدمت میں ارشاد کر رہے ہیں۔ جزاکم اللہ عنا خیر الجزاء

(1)کیا یہ جائز ہے کہ سود انہی بینکوں میں چھوڑ دینے کے بجائے اسے فقراء اور خیراتی اداروں میں تقسیم کر دیا جائے؟

(2) اور اگر یہ جائز نہیں تو کیا چوری یا ضائع ہونے کے خدشہ کی وجہ سے حفاظت کے لیے بینکوں میں اپنی رقوم رکھنا جائز ہے جب کہ بینک ان رقوم کو جب تک یہ اس کے پاس رہیں گی، اپنے مقاصد میں استعمال کرتا رہے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بوقت ضرورت سودی بینکوں کے ذریعہ اپنی رقوم منتقل کرنے میں ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَد فَصَّلَ لَكُم ما حَرَّ‌مَ عَلَيكُم إِلّا مَا اضطُرِ‌ر‌تُم إِلَيهِ...١١٩﴾... سورة الانعام

"جو چیزیں اس نے تمہارے لیے حرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں مگر اس صورت میں کہ ناچار ہو جاؤ۔"

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر میں انہی بینکوں کے ذریعہ رقوم منتقل کرنا عام ضروریات میں سے ہے، اسی طرح سود کی شرط کے بغیر محض حفاظت کے لیے رقوم رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر کسی شرط یا معاہدہ کے بغیر بینک سود ادا کریں تو اسے لے کر خیراتی سکیموں اور فقراء و مقروض لوگوں میں تقسیم کر دینے میں کوئی حرج نہیں، اس سودی رقم میں سے اپنے پاس نہ رکھے اور نہ خود اس سے کوئی فائدہ اٹھائے، یہ کامئی اگرچہ ناجائز ہے لیکن اسے لے کر فقیروں میں تقسیم کر دینا چاہیے کیونکہ اسے بینک کے پاس چھوڑ دینے میں مسلمانوں کا نقصان ہے۔ لہذا اسے مسلمانوں کے مفاد میں صرف کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ اسے کفار ہی کے پاس رہنے دیا جائے تاکہ وہ اسے حرام کاموں میں استعمال کریں۔ اگر ان رقوم کو غیر سودی بینکوں یا دیگر مباح طریقوں سے منتقل کرنا ممکن ہو تو پھر سودی بینکوں کے ذریعہ انہیں منتقل کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر اسلامی بینکوں یا اسلامی تجارت میں انرقوم کو لگانا ممکن ہو تو پھر انہیں سودی بینکوں میں رکھنا جائز نہیں کہ اس صورت میں سودی بینکوں کے استعمال کی ضرورت نہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص524

محدث فتویٰ

تبصرے