سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بینکوں کے حصص کی خریداری

  • 9394
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 1131

سوال

بینکوں کے حصص کی خریداری
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بینکوں کے حصص کو خریدنا اور پھر انہیں ایک مدت کے بعد فروخت کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جس میں ایک ہزار مثلا تین ہزار کے بھی بن جاتے ہیں، کیا یہ سود شمار ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بینکوں کے حصص کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے کیونکہ یہ تساوی اور تقابض کی شرط کے بغیر نقود کی نقود کے ساتھ بیع ہے اور پھر یہ سودی ادارے ہیں۔ لہذا ان سے تعاون اور خریدوفروخت جائز نہیں ہے کہ ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢﴾.... سورة المائدة

"اور نیکی اور پیرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔"

اور حدیث سے ثابت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا:

(هم سواء) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598)

"یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔" آپ ان بینکوں سے صرف اپنا اصل سرمایہ لے سکتے ہیں۔

آپ کو اور دیگر تمام مسلمانوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ خود بھی سودی معالات سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچائیں، سابقہ کو تاہیوں سے اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کریں کیونکہ سودی معاملات تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ہے اور اس کے غضب و عذاب کا سبب جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّ‌بو‌ٰا لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّ‌بو‌ٰا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا ۚ فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُ‌هُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَن عادَ فَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ‌ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢٧٥ يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰا وَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفّارٍ‌ أَثيمٍ ﴿٢٧٦﴾... سورة البقرة

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ سود کو مٹاتا (بے برکت کرتا) اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة

"اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو)۔ اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان ہو اور نہ تمہارا نقصان۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص518

محدث فتویٰ

تبصرے