کیا ایک مسلمان کے لیے ان بینکوں کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے جو سرمایہ پر سود دیتے اور قرض پر سود لیتے ہیں؟
کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا سرمایہ کسی ایسے بینک میں رکھے جو اسے سالانہ معین مقدار میں سود دیتا ہو اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ سودا ادا کرنے کی شرط پر کسی بھی بینک سے قرض لے مثلا یہ کہ جب وہ بینک کا سرمایہ واپس کرے گا تو اس سے پانچ فی صد سود بھی ادا کرے گا۔ یہ دونوں صورتیں کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل کے عموم میں داخل ہیں جو سود کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے۔والحمداللہ!
جہاں تک سود کے بغیر بینکوں میں اپنا سرمایہ محض بطور امانت رکھنےکی بات ہے تو اگر آدمی مجبور و مضطر نہ ہو تو پھر جائز نہیں کیونکہ یہ بینک مالکان کے ساتھ سودی معاملات میں تعاون ہو گا اور اشراد باری تعالیٰ ہے:
"اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔"
اور اگر کوئی شخص بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھنے کے لیے مجبور ہو تو پھر ان شاءاللہ اس میں کوئی حرج نہ ہو گا۔ ایک بینک کے ذریعے دوسرے بینک میں سرمایہ کی منتقلی میں کوئی حرج نہیں خواہ منتقلی کی خدمات سرانجام دینے والا بینک سرچارج وصول کرے کیونکہ یہ سر چارج در حقیقت منتقلی کے کام کی اجرت ہوتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب