سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بینکوں میں سود پر رقم جمع کرانا

  • 9380
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 701

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بینکوں میں سرمایہ کاری کے بارے میں کیا حکم ہے، جب کہ بینک رقوم جمع کرانے پر سود دیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی شریعت کا علم رکھنے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ بینکوں میں سود پر سرمایہ کاری حرام ہے، کبیرہ گناہ ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّ‌بو‌ٰالا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم قالوا إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّ‌بو‌ٰا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا فَمَن جاءَهُ مَوعِظَةٌ مِن رَ‌بِّهِ فَانتَهىٰ فَلَهُ ما سَلَفَ وَأَمرُ‌هُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَن عادَ فَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ‌ ۖ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢٧٥ يَمحَقُ اللَّهُ الرِّ‌بو‌ٰاوَيُر‌بِى الصَّدَقـٰتِ ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفّارٍ‌ أَثيمٍ ﴿٢٧٦﴾... سورة البقرة

"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لھاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام، تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا ہو اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَر‌وا ما بَقِىَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورةالبقرة

"اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو)" اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا (نقصان)۔"

اور صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا:

(هم سواء) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598)ٖ

"یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"

صحیح بخاری میں حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھالنے والے پر لعنت کی اور مصور پر بھی لعنت فرمائی۔"[1]

اور صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اجتنبوا السبع الموبقات)

"سات تباہ و برباد کر دینے والی چیزوں سے اجتناب کرو۔"

عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ سات چیزیں کون سی ہیں؟ فرمایا:

(الشرک باللہ، والسحر، وقتل النفس التی حرم اللہ الا بالحق، واکل مال الیتیم، واکل الربا، والتولی یوم الزحف، وقذف المحصنات الغافلات المومنات) (صحیح البخاری، الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ (إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَ‌ٰلَ ٱلْيَتَـٰمَىٰ...الخ) ، ح: 2766 وصحیح مسلم، الایمان، باب الکبائر واکبرھا، ح: 89)

"شرک کرنا، جادو کرنا، اس نفس کو قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو مگر حق کے ساتھ، یتیم کے مال کو کھانا، سود کھانا، جنگ کے دن فرار ہونا اور پاک دامن غافل اور مومن عورتوں پر بہتان اور تہمت لگانا۔"

سود کی حرمت اور اس سے بچنے کے بارے میں آیات و احادیث بہت سی ہیں، لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ سود سے بچیں، اس کو ترک کر دیں اور دوسروں کو بھی اسے ترک کر دینے کی تلقین کریں۔ مسلمان حکمرانوں پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں سودی بینک قائم کرنے والوں کو منع کریں، ان سے شریعت مطہرہ کے حکم کی پابندی کرائیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو نافذ کر کے اس کے عذاب سے بچ سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَر‌وا مِن بَنى إِسر‌ٰ‌ءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَر‌يَمَ ۚ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ‌ فَعَلوهُ ۚ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩﴾... سورة المائدة

"جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داود اور عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی،  یہ اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کئے جاتے تھے (اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ برا کرتے تھے۔" اور فرمایا:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ يَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ ...٧١﴾... سورة التوبة

"اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں۔"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(ان الناس اذا راوا المنكر‘ فلم يغيروه او شك ان يعمهم الله بعقابه) (سنن ابن ماجه‘ الفتن‘ باب الامر بالمعروف...الخ‘ ح: 4005 وسنن ابي داود‘ ح: 4338 و جامع الترمذي‘ ح: 3057 ومسند احمد: ½ واللفظ له)

"لوگ جب برائی کو دیکھیں اور اس سے منع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے سکتا ہے۔"

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کے بارے میں آیات و احادیث بہت سی ہیں جو معلوم ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو، حکام کو بھی اور محکوم کو بھی، علماء کو بھی اور عوام کو بھی استقامت کے ساتھ اپنی شریعت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور ہر اس کام سے بچائے جو اس کی شریعت کے مخالف ہو۔


[1] صحیح بخاری، البیوع، باب موکل الربا لقول اللہ عزوجل...الخ، حدیث: 2086

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج2 ص512

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ