السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک عجیب سی بات سنی ہے کہ مرکزی جمیعت اہلحدیث کے علماء جو پنجابی میں تقریر کرتے ہیں اور اس میں دوران تقریر جو موحدانہ نظمیں پڑھتے ہیں ، یہ بدعت میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ ایسا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!سب سے پہلے ہمیں بدعت کی تعریف کو دیکھنا ہوگا،کہ بدعت کہا کس عمل کو جا تا ہے۔ جوہری لکھتے ہیں ''انشاء الشیء لا علی مثال السابق ، واختراعه وابتکاره بعد ان لم یکن ...''.(لصحاح ٣ ١١٣؛ لسان العرب ٨٦؛ کتاب العین ٢٥٤)بدعت کا معنی ہے کسی نئی چیز کو ایجاد کرناجس کا نمونہ پہلے موجود نہ ہو ۔. راغب اصفہانی لکھتے ہیں ''والبدعة فی المذهب یراد قول لم یستند قائلھا وفاعلھا فیہابصاحب الشریعة واماثلھا المتقدمة واصولھا المتقنة.(مفردات الفاظ القرآن ٣٩ .)دین میں بدعت ہر وہ قول و فعل ہے جسے صاحب شریعت نے بیان نہ کیا ہو اور شریعت کے محکم و متشابہ اصول سے بھی نہ لیا گیا ہو ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں ''والمحدثات بفتح الدال جمع محدثة ،والمراد بھا ما احدث ولیس له اصل فی الشرع ویسمیه فی عرف الشرع بدعة ، وماکان له اصل یدل علیه الشرع فلیس ببدعة ''( فتح الباری ١٣٢١٢ . )ہر وہ نئی چیز جس کی دین میں اصل موجود نہ ہو اسے شریعت میں بدعت کہا جاتا ہے اور ہر وہ چیز جس کی اصل پر کوئی شرعی دلیل موجود ہو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔ اب دیکھیں کہ وعظ ونصیحت کرنا اور تبلیغی فرائض ادا کرنا شریعت سے ثابت ہے،جسے بدعت قرار نہیں دیا جا سکتا۔باقی رہا اس کا طریقہ کار تووہ حسب ضرورت کوئی بھی اختیار کیا جا سکتا ہے،اور کسی بھی زبان میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ایسے تو آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عربی کے علاوہ اور کسی بھی زبان میں تقریر کرنا بدعت ہے ۔حالانکہ اس کو کوئی بھی بدعت نہیں کہتا ہے۔نیز یاد رہے کہ اہل علم طریقہ کار کو باعث ثواب یا شریعت سمجھ کر اختیار نہیں کرتے۔وہ تو عوام کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ انداز اپناتے ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |