سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

سونے کی تجارت

  • 9370
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1006

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سونے کی تجارت کے بارے میں کیا حکم ہے یعنی ایک شخص جب سونا سستا ہوتا ہے تو خرید لیتا اور مہنگا ہوتا تو بیچ دیتا ہے مثلا تیس ریال میں ایک اوقیہ۔خرید کر پچاس ریال میں فروخت کر دیتا ہے تو اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ نقد کی نقد کے ساتھ بیع کے حکم میں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سونے کی سونے کے ساتھ بیع میں کوئی حرج نہیں، جبکہ یکساں ہو، وزن ایک جیسا ہو، سونا برابر برابر ہو اور سودا دست بدست ہو، سونا خواہ نیا ہو یا پرانا یا ان میں سے ایک نیا اور دوسرا پرانا ہو۔

سونے کی چاندی اور پیپر کرنسی کے ساتھ بیع میں بھی کوئی حرج نہیں جب کہ سودا دست بدست ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(الذهب بالذهب‘ والفضة بالفضه‘ والبر بالبر‘ والشعير بالشعير‘ والتمر بالتمر‘ والملح بالملح‘ مثلا بمثل‘ سواء بسواء‘ يدا بيد) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا‘ ح: 1587)

"سونا سونے کے ساتھ، چاندی چاندی کے ساتھ، گندم گندم کے ساتھ، جو جو کے ساتھ، کھجور کھجور کے ساتھ اور نمک نمک کے ساتھ، یکساں طور پر برابر برابر وزن بھی ایک جیسااور سودا دست بدست ہو اور جب یہ اجناس مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ دست بدست ہو۔"

نیز حدیث ابن سعید رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تبيعوا الذهب بالذهب الا مثلا بمثل ولا تشقوا بعضها علي بعض‘ ولا تبيعوا الورق بالورق الا مثلا بمثل ولا تشقوا بعضها علي بعض‘ ولا تبيعوا منها غائبا بناجز) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب بيع الفضة بالفضة‘ ح: 2177 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الربا‘ ح: 75/1584)

"سونے کو سونے کے ساتھ نہ بیچو الا یہ کہ وہ برابر ہو اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ نہ کرو۔ اور چاندی کو چاندی کے ساتھ نہ بیچو الا یہ کہ وہ برابر برابر ہو اور ایک دوسرے کو کم یا زیادہ نہ کرو اور نہ ان میں سے غائب کو حاضر کے ساتھ بیچو۔"

یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سونے کو سونے کے ساتھ کمائی یا نفع کے لیے نرخوں کی تبدیلی کے بعد بیچنے میں کوئی حرج نہیں جب کہ خریدوفروخت اس طرح ہو جس طرح ان حدیثوں میں مذکور ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ