سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مستعمل سونے کی نئے سونے سے فرق کے ساتھ بیع

  • 9367
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1191

سوال

مستعمل سونے کی نئے سونے سے فرق کے ساتھ بیع
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص زیورات کی خریدو فروخت کا کام کرتا ہے، ایک شخص اس کے پاس مستعمل سونا لے کر آتا ہے تو وہ اس سے خرید لیتا اور ریالوں میں اس کی قیمت بتا دیتا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ اسی جگہ اور اسی وقت قیمت ادا کرے، پرانا سونا بیچنے والا اس سے نیا سونا خرید لیتا ہے، اس کی قیمت بھی بتا دی جاتی ہے اور مشتری فرق اپنی طرف سے ادا کر دیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے یا ضروری ہے کہ وہ پہلے مستعمل سونے کی قیمت ادا کرے اور پھر مشتری سے نئے سونے کی قیمت وصول کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں یہ واجب ہے کہ مستعمل سونے کی قیمت ادا کی جائے پھر مستعمل سونا بیچے والے کو اختیار ہو گا کہ وہ اسی سے یا کسی اور سے نیا سونا خریدے اور اگر اسی سے خریدے تو نئے سونے کی قیمت ادا کر دے تاکہ مسلمان سود والی ردی جنس کو اس کی عمدہ جنس سے اضافہ کے ساتھ بیچ کر سود کا ارتکاب نہ کرے جو کہ حرام ہے۔ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل مقرر کیا تو وہ آپ کے پاس بہت عمدہ کھجوریں لے کر آیا تو آپ نے فرمایا:

(اكل تمر خيبر هكذا؟)

"کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح کی ہیں؟

اس نے عرض کیا: جی نہیں بلکہ ہم اس طرح کا ایک صاع دو صاع کھجوروں کے عوض خرید لیتے ہیں اور دو صاع تین صاع کھجوروں کے عوض لے لیتے ہیں تو آپ نے فرمایا:

(لا تفعل بع الجمع بالدراهم‘ ثم ابتع بالدراهم جنيبا) (صحيح البخاري‘ المغازي‘ باب استعمال النبي صلي الله عليه وسلم علي اهل خيبر‘ ح 4244‘4245 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب بيع الطعام مثلا بمثل‘ ح: 1593)

"اس طرح جمع کر کے نہ سودا کرو بلکہ کم قیمت کی کھجور کو درہموں کے ساتھ بیچو اور پھر درہموں کے ساتھ عمدہ قسم کی کھجور خرید لو۔"

اسی طرح کی بیع میں ادلہ بدلہ خواہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت پر ہو، سونے کی سونے سے اضافہ کے ساتھ بیع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور یہ حرام ہے کیونکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الذهب بالذهب‘ والفضة بالفضه‘ والبر بالبر‘ والشعير بالشعير‘ والتمر بالتمر‘ والملح بالملح‘ مثلا بمثل‘ سواء بسواء‘ يدا بيد) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا‘ ح: 1587)

"سونا سونے سے، چاندی چاندی سے، گندم گندم سے، جو جو سے، کھجور کھجور سے  اور نمک نمک سے یکساں  برابر برابر اور دست بدست ہونا چاہیے ہاں البتہ اگر یہ اصناف مختلف ہوں تو جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ سودا دست بدست ہو۔"

ابن سعید کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:

(من زاد او استزاد فقد اربي‘ الاخذ والمعطي فيه سواء) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا‘ ح: 82/1584)

"جس نے زیادہ لیا یا زیادہ دیا اس نے سودی معاملہ کیا اور سود لینے والا اور دینے والا سب برابر ہیں۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے