ایک شخص زیورات کی خریدو فروخت کا کام کرتا ہے، ایک شخص اس کے پاس مستعمل سونا لے کر آتا ہے تو وہ اس سے خرید لیتا اور ریالوں میں اس کی قیمت بتا دیتا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ اسی جگہ اور اسی وقت قیمت ادا کرے، پرانا سونا بیچنے والا اس سے نیا سونا خرید لیتا ہے، اس کی قیمت بھی بتا دی جاتی ہے اور مشتری فرق اپنی طرف سے ادا کر دیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے یا ضروری ہے کہ وہ پہلے مستعمل سونے کی قیمت ادا کرے اور پھر مشتری سے نئے سونے کی قیمت وصول کرے؟
اس صورت میں یہ واجب ہے کہ مستعمل سونے کی قیمت ادا کی جائے پھر مستعمل سونا بیچے والے کو اختیار ہو گا کہ وہ اسی سے یا کسی اور سے نیا سونا خریدے اور اگر اسی سے خریدے تو نئے سونے کی قیمت ادا کر دے تاکہ مسلمان سود والی ردی جنس کو اس کی عمدہ جنس سے اضافہ کے ساتھ بیچ کر سود کا ارتکاب نہ کرے جو کہ حرام ہے۔ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل مقرر کیا تو وہ آپ کے پاس بہت عمدہ کھجوریں لے کر آیا تو آپ نے فرمایا:
"کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح کی ہیں؟
اس نے عرض کیا: جی نہیں بلکہ ہم اس طرح کا ایک صاع دو صاع کھجوروں کے عوض خرید لیتے ہیں اور دو صاع تین صاع کھجوروں کے عوض لے لیتے ہیں تو آپ نے فرمایا:
"اس طرح جمع کر کے نہ سودا کرو بلکہ کم قیمت کی کھجور کو درہموں کے ساتھ بیچو اور پھر درہموں کے ساتھ عمدہ قسم کی کھجور خرید لو۔"
اسی طرح کی بیع میں ادلہ بدلہ خواہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت پر ہو، سونے کی سونے سے اضافہ کے ساتھ بیع کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور یہ حرام ہے کیونکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سونا سونے سے، چاندی چاندی سے، گندم گندم سے، جو جو سے، کھجور کھجور سے اور نمک نمک سے یکساں برابر برابر اور دست بدست ہونا چاہیے ہاں البتہ اگر یہ اصناف مختلف ہوں تو جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ سودا دست بدست ہو۔"
ابن سعید کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
"جس نے زیادہ لیا یا زیادہ دیا اس نے سودی معاملہ کیا اور سود لینے والا اور دینے والا سب برابر ہیں۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب