سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ناواقفیت کی وجہ سے آپ پر کچھ لازم نہیں

  • 9357
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 854

سوال

ناواقفیت کی وجہ سے آپ پر کچھ لازم نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں سعودیہ میں کام کرتا ہوں اور اپنے ملک سوڈان میں رقوم اس طرح منتقل کرتا ہوں کہ ایک شخص جب مجھے سعودی ریال دے دیتا ہے تو میں اسے سوڈان میں اپنے ایجنٹ کے نام خط دے دیتا ہون تاکہ وہ اسے سعودی ریال کے عوض سوڈانی گنیاں دے دے، تو اس طرح ہم دونوں کرنسی کے فرق سے مستفید ہوتے ہیں۔ پھر میں ریال سٹیٹ بینک امریکہ میں بھیج دیتا ہوں اور وہاں سے سوڈان منتقل کر لیتا ہوں تو اس طرح ایک ڈالر کے دو ڈالر بن جاتے ہیں تو اب کیا کروں جب کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ حرام ہے اور اس طرح کمائے ہوئے مال سے میں نے شادی بھی کی ہے اور جائیدادیں بھی بنائی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ یہ معاملہ ممنوع ہے کیونکہ رقم کے تبادلہ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ دست بدست ہو مثلا اگر وہ سعودی ریالوں کا سوڈانی گنیوں سے تبادلہ کرنا چاہے اور پھر گنیوں کو سوڈان بھیجنا چاہے تو اس کے لیے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سعودی ریال لے کر سوڈانی گنیاں دے دو اور پھر انہیں اپنے ایجنٹ کو ارسال کر دو یا ریال ہی سوڈان ارسال کر دو اور انہیں وہاں گنیوں سے تبدیل کر دیا جائے تاکہ دونوں طرف سے قبضہ دست بدست ہو لیکن آپ ریال تو یہاں اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور ایجنٹ کو خط ارسال کر دیتے ہیں، اس طرح فریقین کے باہمی قبضہ کی صورت ختم ہو جاتی ہے اور اس مدت میں نرخ میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے اور پھر آپ امریکی بینک کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں تو یہ ایک سودی معاملہ بھی ہے کیونکہ یہ بینک سود کی بنیادوں پر کام کرتا ہے اور جیسا کہ آپ نے ذکر بھی کیا ہے کہ آپ ایک ڈالر کے دو ڈالر حاصل کر لیتے ہیں تو یہ اضافہ سود ہونے کی وجہ سے صریحا حرام ہے۔ لہذا آپ کے لیے واجب یہ ہے کہ اس کام سے توبہ کریں، اسے بالکل چھوڑ دیں اور اس کے بجائے ایسا جائز طریقہ اختیار کریں جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہو۔ شرعی حکم سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس طرح آپ نے جو مال کمایا ہے تو اسے اپنے پاس رکھنے اور اس سے بنائی ہوئی جائیداد اور اس سے ادا کئے ہوئے مہر اور نان و نفقہ میں کوئی حرج نہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے