ادھار کی بیع کے بارے میں کیا حکم ہے جس میں بیع و شراء کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ سامان اپنی جگہ پر ہی ہوتا ہے، جیسا کہ اس وقت ادھار کی بیع کے سلسلہ میں یہ طریقہ لوگوں میں رائج ہے؟
کسی بھی مسلمان کے لیے نقد یا ادھار کوئی سامان بیچنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ اس کی ملکیت اور قبضہ میں ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
"اس چیز کو نہ بیچو جو تمہارے پاس نہ ہو۔"
اسی طرح حدیث عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"ادھار اور بیع حلال نہیں ہے اور نہ یہ حلال ہے کہ ایسی چیز بیچو جو تمہارے پاس نہ ہو۔"
ان دونوں حدیثوں کے پیش نظر خریدار کو بھی چاہیے کہ وہ اس وقت تک کوئی چیز نہ بیچے جب تک اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لے کیونکہ امام احمد اور ابو داود نے بھی روایت کیا اور ابن حبان و حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے کہ زید بن ثابت سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ سامان کو اسی جگہ بیچا جائے جہاں سے اسے خریدا گیا ہو تا آنکہ تاجر اسے اپنے مقامات تک نہ منتقل کر لیں"[1] اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "صحیح" میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو بیان فرمایا ہے:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ غلہ کو اٹکل کی بیع کی صورت میں خریدتے تو انہیں اسی جگہ بیچنے پر مارا جاتا تھا یعنی وہ اسے اپنی جگہ منتقل کئے بغیر کیوں بیچتے ہیں۔" اس مضمون کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔
[1] سنن ابی داود، البیوع، باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی، حدیث: 3499 ومسند احمد: 5/191