ایک کمپنی گاڑیوں کے شو رومز میں اپنے نمائندے بھیج دیتی ہے تو جو شخص قسطوں پر گاڑی خریدنا چاہتا ہو تو وہ شو روم کے مالک کے ساتھ قیمت طے کر لیتا ہے اور پھر وہ کمپنی کے نمائندے سے ملتا ہے اور کمپنی اس گاڑی کی مکمل قیمت ادا کر دیتی ہے اور خریدار کے ساتھ اپنا نفع رکھ کر ماہانہ قسطیں طے کر لیتی ہے، امید ہے کمپنی کے شو رومز کے مالکان اور خریداروں کے ساتھ اس معاملہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں رہنمائی فرمائیں گے؟
کمپنی کا یہ معاملہ جس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے، یہ حکم شریعت کے مخالف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"ادھار اور بیع حلال نہیں ہے اور نہ ہی اس چیز کی بیع حلال ہے جو تمہارے پاس ہی نہ ہو۔"
آپ نے حکیم بن حزام سے فرمایا تھا:
"وہ چیز نہ بیچو جو تمہارے پاس ہی نہ ہو۔"
زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ سامان وہاں بیچا جائے جہاں سے خریدا گیا ہو، حتیٰ کہ تاجر اسے اپنی جگہوں پر منتقل کر لیں۔"[1]
مذکورہ کمپنی کا طرز عمل ان تمام احادیث کے مخالف ہے کیونکہ وہ اس چیز کی بیع کرتی ہے جس کی وہ مالک ہی نہیں ہے لہذا اس کے ساتھ تعاون جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔"
شرعی طریقہ یہ ہے کہ یہ کمپنی گاڑیاں اور دیگر سامان وغیرہ خرید کر اپنی جگہ منتقل کرے اور پھر جو خریدنا چاہے اسے نقد یا دھار بیچ دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
[1] سنن ابی داود، البیوع، باب فی بیع الطعام قبل ان یستوفی، حدیث: 3499 ومسند احمد: 5/191