ایک آدمی نے دوسرے کے چاول کی بوریان ایک مدت کے ادھار پر بیچیں تو مشتری نے انہیں بائع سے لے کر اپنے قبضہ میں لے لیااور دلال انہیں بازار میں لے گیا تو دلال سے ایک اور آدمی نے انہیں خرید لیا اور کہا کہ انہیں قبضہ میں لے لو لیکن گاہک نے انہیں موجود نہ پایا تو بائع اول نے کہا کہ میں وکیل ہوں، میں انہیں دلال سے لے کر اپنے قبضہ میں لے لوں گا، یہ بات سن کا حاضرین پکار اٹھے کہ یہ تو سود ہے سود! اس مسئلہ میں فتویٰ دیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو اجروثواب سے نوازے!
جس شخص نے دلال سے چاول خریدے ہیں اگر اس نے یہ اپنے لیے خریدے ہیں، اس کے ارو بائع اول کے درمیان یہ منصوبہ بندی بھی نہیں ہے کہ وہ اس کے لیے خریدے اور وہ اس کے پاس کام بھی نہیں کرتا اور بائع اول کا چاول کی بوریوں کو اپنے قبضہ میں لینا دلال سے مشتری کے لیے بطریق وکالہ ہے تو بیع صحیح ہے اور اس میں ربا نہیں ہے اور اگر بائع اول اور دلال سے چاول کی بوریاں خریدنے والے کے درمیان پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی ہے کہ وہ اس سے خریدے تاکہ یہ بوریاں پھر سے بائع اول کے پاس آ جائیں تو یہ ربا ہے اور بیع صحیح نہیں ہے اور یہ دھوکا ہے جو اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں اور نہ اس سے حرام حلال ہو گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب