سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مردہ جانور کی بیع

  • 9334
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1669

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی انسان کے لیے مردہ جانور کو بیچنا اور اس کی قیمت وصول کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردہ جانور حرام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿حُرِّ‌مَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ...٣﴾... سورة المائدة

"تم پر مرا ہوا (مردار) جانور حرام کر دیا گیا ہے۔"

اور جب یہ حرام ہے تو اس کی خریدوفروخت اور اس کی قیمت بھی حرام ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اس کا کھانا حرام ہے سوائے اس کے کہ حالت اضطرار ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں حرام اشیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:

﴿فَمَنِ اضطُرَّ‌ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ‌ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ﴿٣﴾... سورة المائدة

"ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

لیکن اس سے ٹڈی اور مچھلی مستثنیٰ ہیں کہ ان کی بیع میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی اور ٹڈی کو حلال قررا دیا ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿أُحِلَّ لَكُم صَيدُ البَحرِ‌ وَطَعامُهُ مَتـٰعًا لَكُم وَلِلسَّيّارَ‌ةِ...٩٦﴾... سورة المائدة

"تمہارے لیے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے۔ (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کے لیے۔"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے بارے میں فرمایا ہے:

(هو الطهور ماوه الحل ميتة) (سنن ابي داود‘ الطهارة‘ باب الوضوء بما البحر‘ ح: 83 و جامع الترمذي‘ ح: 69 وسنن النسائي‘ ح: 59 وسنن ابن ماجه‘ ح: 386)

"اس کا پانی پاک اور اس کا مردہ جانور حلال ہے۔"

نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(احلت لنا ميتتان ودمان‘ فاما الميتتان فالحوت والجراد‘ واما الدمان‘ فالكبد والطحال) (سنن ابن ماجه‘ الاطمعة‘ باب الكبد والطحال‘ ح: 3314 ومسند احمد: 2/97)

"ہمارے لیے دو مردے اور دو خون حلال کر دئیے گئے ہیں، مُردوں سے مراد مچھلی اور ٹڈی اور خونوں سے مراد جگر اور تلی ہے۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ