بینکوں کے حصص خریدنے اور پھر ایک مدت کے بعد فروخت کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے کہ اس طرح ایک ہزار کے تین ہزار بھی ہو جاتے ہیں، کیا یہ خریدوفروخت سود ہے؟
بینکوں کے حصص کی خریدوفروخت جائز نہیں کیونکہ یہ تساوی اور تقابض کی شرط کے بغیر نقدی کی نقدی کے ساتھ بیع ہے اور پھر سودی اداروں کے ساتھ خریدو فروخت کی صورت میں تعاون کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور نیکی اور پرہیز گاری ےک کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔"
اور حدیث سے ثابت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"
آپ کے لیے صرف راس المال ہی جائز ہے۔ آپ کے لیے اور دیگر تمام مسلمانوں کے لیے میری وصیت یہ ہے کہ تمام سودی معاملات سے مکمل طور پر اجتناب کریں اور جو کچھ پہلے ہو چکا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ سودی معاملات تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ہیں اوریہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب کا سبب ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ سود کو مٹاتا (بے برکت کرتا) اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے مومنو! اللہ سے ڈرو، اور اگر ایمان رکھتے ہو تو (تمہارا) جتنا سود (لوگوں پر) باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر ایسا تم نے نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اور اگر تم (اب بھی) توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو تو تمہیں اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے نہ تم ظلم کرو،اور نہ تم پر ظلم کیاجائے۔" اور جیسا کہ سابقہ حدیث شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب