سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

پرانے خالص سونے کا ایسے سونے سے تبادلہ جس میں نگینے بھی ہوں

  • 9311
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 994

سوال

پرانے خالص سونے کا ایسے سونے سے تبادلہ جس میں نگینے بھی ہوں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سونے کی دکانوں کے بعض مالکان سونے کے تاجر کے پاس جاتے ہیں اور اس سے مثلا ایک کلو ایسا سونا خرید لیتے ہیں جو نگینوں کے ساتھ مرصع ہوتا ہے خواہ یہ نگینے الماس یا زرکون جیسے قیمتی پتھروں کے ہوں یا دیگر عام پتھروں کے اور خریدار اس کے عوض ایک کلو خالص سونا دیتا ہے جس میں نگینے نہیں ہوتے اور پھر بائع زیورات کے بنانے کی اجرت بھی وصول کرتا ہے۔ یعنی بائع اس طرح دو فائدے حاصل کرتا ہے ایک تو یہ کہ وہ نگینوں کے عوض سونا حاصل کرتا ہے اور دوسرے وہ زیورات کے بنانے کی اجرت بھی وصول کرتا ہے حالانکہ وہ سونے کا تاجر ہے زرگر نہیں، تو اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ کام حرام ہے کیونکہ یہ سود پر مشتمل ہے اور جیسا کہ سائل نے ذکر کیا، سود اس میں دو طرح سے ہے (1) نگینوں وغیرہ کے مقابلہ میں سونے کا حصول حالانکہ یہ اس ہار کے مشابہہ ہیں جس کا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر ہے کہ "انہوں نے بارہ دینار میں ایک ایسا ہار خریدا جس میں سونا بھی تھا اور پتھر کے نگ بھی، تو انہوں نے اسے الگ الگ کر دیا اور دیکھا کہ اس میں نگ سونے سے بھی زیادہ ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تباع حتي تفصل) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب بيع القلادة...الخ‘ ح: 1591)

"اس طرح کے ہار کو الگ الگ کئے بغیر نہ بیچا جائے۔"

(2) دوسرا اضافہ زیورات کے بنانے کی اجرت ہے اور صحیح یہ ہے اجرت کا اضافہ بھی جائز نہیں کیونکہ اگرچہ زیورات کی صنعت کا تعلق آدمی کے فعل سے ہے لیکن سودی معاملات میں یہ اضافہ اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز پر اضافہ لینا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عمدہ کھجور کا ایک صاع، دو صاع ردی کھجور کے عوض خریدا جائے[1] اور مسلمان کے لیے یہ واجب ہے کہ وہ سود سے بچے اور اس سے دور رہے کیونکہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔


[1] صحیح بخاری، البیوع، باب اذا اراد بیع تمر بتمر خیر منہ، حدیث: 2201-2202 وصحیح مسلم، المساقاة،باب بیع الطعام مثلا بمثل، ح: 1593

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے