ایک آدمی نے سونے کا ایک ٹکڑا دو سو دینار میں خریدا اور ایک عرصہ تک اسے محفوظ رکھا حتیٰ کہ اس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تو اسے تین ہزار دینار میں بیچ دیا تو اس اضافہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اس اضافہ میں کوئی حرج نہیں ہے مسلمان بیع و شراء میں ہمیشہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں کہ سامان خریدتے ہیں اور قیمت میں اضافہ ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور بسا اوقات اپنے استعمال کے لیے خریدتے ہیں اور قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جانے پر بیچ بھی دیتے ہیں حالانکہ پہلے بیچنے کی نیت نہیں ہوتی، اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ اضافہ بازار کے مطابق ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں، خواہ اس میں کئی گناہ اضافہ ہو جائے۔
ہاں البتہ اگر اضافہ اس طرح ہو کہ سونے کا سونے سے تبادلہ کر کے اضافہ وصول کرے تو یہ حرام ہے کیونکہ سونے کی سونے سے بیع جائز نہیں الا یہ کہ وزن برابر ہو اور سودا دست بدست ہو جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے [1]جب آپ سونے کو سنوے کے ساتھ بیچیں خواہ ان میں کوالٹی کے اعتبار سے فرق ہو یعنی ایک دوسرے سے زیادہ اچھا ہو تو پھر بھی برابر برابر اور دست بدست سودا کریں۔ اگر سونا نمبر 18 کے دو مثقال سونا نمبر 24 کے ڈیڑھ مثقال کے بدلے میں لیے تو یہ حرام ہے کیونکہ دونوں کا وزن برابر ہونا چاہیے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ بائع اور مشتری مجلس عقد ہی میں نقد لین دین کریں یعنی اگر ایک نے تو سونے کے دو مثقال لے لیے اور دوسرے نے اسی مجلس میں نہ لیے بلکہ اس کے قبضہ میں تاخیر ہو گئی تو یہ بھی جائز نہیں، اسی طرح سونے کی کرنسی نوٹوں کے ساتھ خریدوفروخت کے بارے میں یہی حکم ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی تاجر یا زرگر سے سونا خریدتا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی مکمل قیمت ادا کئے بغیر اس سے جدا ہو کیونکہ کرنسی نوٹ چاندی کے قائم مقام ہیں۔ اور جب سونے کی چاندی کے ساتھ بیع ہو تو پھر بھی واجب ہے کہ بائع اور مشتری جدا ہونے سے پہلے پہلے مجلس عقد میں اپنے خریدے ہوئے سودے کو قبضہ میں لے لیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب یہ اصناف مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ سودا دست بدست ہو!"
[1] صحیح مسلم، المساقاة، باب الربا، حدیث: 1584-1587