سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حرام کاروبار کرنے والے دکانداروں کے پاس ملازمت

  • 9305
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 1141

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سونے کی دکانوں کے ایسے مالکان کے پاس کام کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے جو سودی یا حرام حیلے یا ملاوٹ اور دھوکا وغیرہ کے غیر شرعی کام کرتے ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسے لوگوں کے پاس کام کرنا حرام ہے جو سود یا دھوکا و ملاوٹ کا کاروبار کرتے ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢﴾... سورة المائدة

"اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ لیا کرو۔"

یہ ارشاد بھی ہے:

﴿وَقَد نَزَّلَ عَلَيكُم فِى الكِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءايـٰتِ اللَّهِ يُكفَرُ‌ بِها وَيُستَهزَأُ بِها فَلا تَقعُدوا مَعَهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِ‌هِ ۚ إِنَّكُم إِذًا مِثلُهُم...١٤٠﴾... سورة النساء

"اور اللہ نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگ جائیں ان کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من راي منكم منكرا فليغيره بيده‘ فان لم يستطع فبلسانه‘ فان لم يستطع فبقلبه) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب بيان كون النهي عن المنكر...الخ‘ ح: 49)

"تم میں سے جو شخص کوئی برا کام دیکھے تو اسے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے سمجھا دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانے۔"

اور جو ایسے لوگوں کے پاس کام کرتا ہے اس نے گویا اس برے کام کو نہ ہاتھ سے متایا، نہ زبان سے سمجھایا اور نہ دل ہی میں برا جانا، لہذا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ