سونے کی دکانوں کے بعض مالکان جائز سمجھتے ہوئے ادھار سونا خریدتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ بھی سامان تجارت ہی ہے۔ اس سلسلہ میں جب ان کے بڑے لوگوں سے بات کی گئی کہ یہ کام ناجائز ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اہل علم کو اس کام کے بارے میں علم نہیں ہے؟
یہ معاملہ یعنی سونے کی دراہم کے ساتھ ادھار بیع بالاجماع حرام ہے کیونکہ یہ ربا النسیئہ ہے اور عبادہ بن صامت کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سونا سونے کے بدلہ، چاندی چاندی کے بدلہ۔۔۔ الخ اور پھر آپ نے فرمایا:
"جب یہ اصناف مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو بیچو جب کہ معاملہ دست بدست ہو۔"
انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ اہل علم کو اس کا علم نہیں ہے تو یہ اہل علم پر ناحق تہمت ہے کیونکہ اگر یہ انہیں اہل علم کہہ رہا ہے تو پھر انہیں علم ہے کیونکہ علم کی صد تو جہالت ہے اور اہل علم ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر جو احکام نازل فرمائے ہیں یہ انہیں جانتے ہیں۔ اور وہ جانتے ہیں کہ یہ معاملہ، حرمت پر دلالت نص کی وجہ سے، ایک حرام کام ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب