سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مستعمل سونے کا نئے سونے کے ساتھ تبادلہ۔۔۔

  • 9288
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1054

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس کے بارے میں کیا حکم ہے کہ زیورات کی دکانوں کے بہت سے مالکان مستعمل سونا خرید لیتے ہیں اور پھر اسے سونے کے تاجر کے پاس لے جاتے ہیں اور اسے سونے کے نئے زیورات کے ساتھ بدل لیتے ہیں؟  وزن تو وزن کے برابر ہوتا ہے البتہ تاجر نئے زیورات کے بنانے کی اجرت وصول کر لیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:

(الذهب بالذهب‘ والفضة بالفضه‘ والبر بالبر‘ والشعير بالشعير‘ والتمر بالتمر‘ والملح بالملح‘ مثلا بمثل‘ سواء بسواء‘ يدا بيد) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا‘ ح: 1587)

"سونا سونے کے ساتھ، چاندی چاندی کے ساتھ، گندم گندم کے ساتھ، جو جو کے ساتھ اور کھجور کھجور کے ساتھ ایک ہی طرح، برابر برابر اور دست بدست ہونی چاہیے۔"

آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(من زاد او استزاد فقد اربي) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب الصرف و بيع الذهب بالورق نقدا‘ ح: 82/1584‘1588)

"جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا۔"

یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ کی خدمت میں جب عمدہ کھجوریں پیش کی گئی تھیں تو آپ نے ان کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام نے بتایا کہ ہم اس طرح کی کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور عام کھجوروں کے دو صاع دے دیتے ہیں یا دو صاع لیتے اور تبادلہ میں تین صاع دے دیتے ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس بیع کو رد کر دیا جائے کہ یہ عین ربا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ "روی کھجور کو درہموں کے ساتھ بیچ دو ور پھر ان درہموں کے ساتھ عمدہ کھجور خرید لو۔"[1]

ان احادیث سے استدلال کرتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ سائل نے جو سونے کے ساتھ تبدیلی اور زیورات بنانے کی اجرت ادا کرنے کے بارے میں سوال پوچھا ہے تو یہ معاملہ حرام ہے، جائز نہیں کیونکہ یہ بھی اس ربا میں داخل ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

اس سلسلہ میں محفوظ طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی معاہدہ یا اتفاق کے پرانے سونے کو پہلے بیچ دیا جائے اور قیمت وصول کرنے والا پھر اس کے ساتھ نئے سونے کو خرید لے اور افضل یہ ہے کہ نئے سونے کو کسی اور جگہ سے خریدے اور اگر مطلوبہ زیورات وغیرہ کسی اور جگہ سے نہ مل سکیں تو پھر اسی سے قیمت ادا کر کے خرید لے اور اس صورت میں اسے زیادہ بھی ادا کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ سونے کا سونے کے ساتھ تبادلہ اضافہ کے ساتھ نہ ہو خواہ یہ اضافہ زیورات کی مزدوری ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو اور یہ اس صورت میں ہے جب تاجر تاجر بیع ہو اور اگر تاجر زرگر ہو تو پھر اس کے جاکر کہیں کہ یہ سونا لے لو اور اس سے مجھے یہ زیورات بنا دو اور جب تم زیورات بنا دو گے تو میں تمہیں مزدوری ادا کر دوں گا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔


[1] صحیح بخاری، البیوع، باب اذا اراد بیع تمر بتمر خیر منہ، حدیث: 2201-2202 وصحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1593

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ