یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض کمپنیاں اس طرح کا کاروبار کرتی ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے سامان یا گاڑی یا گھر وغیرہ خریدنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ چیزیں کمپنیوں کے پاس نہیں ہوتیں تو وہ ضرورت کی یہ اشیاء خرید کر اس شخص کو قسطوں پر نفع کے ساتھ بیچ دیتی یا کمپنیاں اسے کہہ دیتی ہیں کہ تم خود ہی اپنی ضرورت کا سامان خرید لو اور یہ بل ادا کر دیتی اور اس شخص سے نفع لیتی ہیں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص مثلا ایک لاکھ قرض لے کہ وہ اسے قسطوں میں ادا کرے گا اور ہر قسط کے ساتھ آٹھ فی صد زیادہ ادا کرے گا اور اس شرح میں خواہ مدت زیادہ ہونے کی صورت میں اضافہ ہو یا نہ ہو یہ ربا ہے، ربا النسیئہ اور ربا الفضل۔ اور اگر مدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ شرح سود میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے تو اس کی قباحت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہی وہ زمانہ جاہلیت کا سود ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم نجات حاصل کرو اور (دوزخ کی) آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔"
یاد رہے کہ اس معاملہ میں کسی حیلہ سازی سے کام لینا اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کے بارہ میں حیلہ سازی ہے اور اس ذات اقدس کے ساتھ مکر و فریب ہے جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید سے خوب آگاہ ہے۔
یاد رہے حیلوں بہانوں سے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور اس وقت حلال نہیں ہو جاتے، جب ان کی ظاہری صورت حلال مگر ان سے مقصود حرام ہو اور پھر حیلہ سازیوں سے تو حرام امور کی قباحت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ حیلہ کرنے والا دو حرام کاموں کا ارتکاب کرتا ہے (1) احکام الہی کے ساتھ مکرو فریب اور تلاعب اور (2) اس حرام کا ارتکاب جس کے لیے اس نے حیلہ سے کام لیا ہے۔
یاد رہے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کے بارے میں حیلہ سازی وہ جرم ہے جس کا یہودیوں نے ارتکاب کیا تھا، اس لیے حیلہ سازی کرنے والا یہودیوں کے مشابہہ بھی ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے:
"تم اس جرم کا ارتکاب نہ کرو جس کا یہودیوں نے ارتکاب کیا تھا اور وہ یہ کہ گھٹیا حیلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کو حلال ٹھہرانے لگ جاؤ۔"
جو شخص بھی خواہش نفس سے پاک ہو کر غور کرے گا، اسے معلوم ہو جائے گا کہ جو شخص گاڑی کے خریدار سے یہ کہے کہ جاؤ شو روم میں جا کر اس گاڑی کو پسند کر لو جسے تم خریدنا چاہتے ہو تو میں اسے شو روم سے خرید کر تمہیں قسطوں پر بیچ دوں گا۔۔۔ یا وہ زمین کے خریدار سے کہے کہ سکیم میں جا کر اس زمین کو پسند کر لو جسے تم خریدنا چاہتے ہو اور پھر اس پلاٹ کو خرید کر میں تمہیں قسطوں میں بیچ دوں گا۔ یا مکان بنانے کے لیے لوہے کے ضرورت مند سے کہے یا سیمنٹ کے ضرورت مند سے کہے کہ فلاں مارکیٹ میں جا کر لوہے اور سیمنٹ کو پسند کر لو جسے تم خریدنا چاہتے ہو تو اسے میں خرید کر قسطوں پر تمہیں بیچ دوں گا۔ تو جو شخص بھی خواہش نفس سے پاک ہو کر ان صورتوں پر غور کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ محض سود کے لیے ایک حیلہ ہے کیونکہ جس تاجر نے مذکورہ بالا سامان خریدا ہے ، اس کا مقصد یہ سامان خریدنا نہ تھا اور نہ اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا اور نہ اس نے ضرورت مند کے ساتھ احسان کے لیے اسے خریدا ہے، بلکہ اس نے تو اسے محض اس لیے خریدا ہے کہ جس مدت کے لیے یہ قرض دے رہا ہے اس کے عوض فائدہ حاصل کر سکے اور جیسے جیسے اس کے ادا کرنے کی مدت میں اضافہ ہو گا اس فائدہ میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ حقیقت میں اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ ان اشیاء کی قیمت میں تجھے قرض دے دیتا ہوں لیکن اس پر تمہیں سود ادا کرنا ہو گا لیکن اس نے درمیان میں سامان کو داخل کر لیا ہے جیسا کہ ثابت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ اس نے دوسرے آدمی کو ایک سو درہم میں حریر بیچا اور پھر اس سے پچاس درہم میں خرید لیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ درہموں کی درہموں کے اضافہ کے ساتھ بیع ہے اور درمیان میں حریرہ داخل ہو گیا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ تہذیب السنن (5/103) میں فرماتے ہیں کہ "یہ ربا ہے اور اس کی حرمت اس کے معنی کے تابع ہے اور بیع کی صورت کے نام بدلنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔"
اگر آپ اس مسئلہ کا مسئلہ عینہ کے ساتھ تقابل کریں تو اسے مسئلہ عینہ کی بعض صورتوں کی نسبت زیادہ قریب پائیں گے کیونکہ عینہ تو جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کو ادھار پر کوئی سامان بیچ دے اور پھر وہ نقد ادا کرکے کم قیمت پر اس سے خرید لے،اس صورت میں بسا اوقات بائع کی اسے خریدنے کی نیت بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود یہ حرام ہے اور حیلہ ساز بائع کی اس بات سے یہ معاملہ جائز نہیں ہو جاتا کہ میں نے اسے اس سامان کے خرینے پر مجبور تو نہیں کیا، کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ مشتری نے اپنی ضرورت ہی کیوجہ سے تو اس سے اس کا مطالبہ کیا ہے اور وہ اس کے خریدنے سے رکے گا بھی نہیں کیانکہ جو لوگ اس طرح سامان کریدنا چاہتے ہیں، ہم نے نہیں سنا کہ کوئی اس کے خریدنے سے باز رہا ہو۔ حیلہ ساز تاجر نے اپنے لیے بظاہر احتیاط سے کام لیا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ مشتری اسے ضرور خریدے گا الا یہ کہ اسے سامان میں کوئی عیب یا اس کی کوالٹی میں کوئی نقص نظر آئے۔
اگر کہا جائے کہ جب یہ معاملہ سود کے لیے حیلہ ہے تو کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جس سے یہ مسئلہ سود کے بغیر بھی حل ہو جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور رحمت کے ساتھ اپنے بندوں سے مصلحتوں کے دروازے کو بند نہیں کیا، اگر اللہ تعالیٰ نے ضرر کی وجہ سے ایک چیز کو اپنے بندوں کے لیے حرام قرار دیا ہے تو اس نے ایسے کئی دروازے بھی کھول دئیے ہیں جو ضرر کے بغیر بندوں کی مصلحتوں پر مشتمل ہیں۔ اس معاملہ میں سلامتی کا راستہ یہ ہے کہ یہ سامان تاجر کے پاس موجود ہونا چاہیے جسے وہ خریداروں کو ادھار بیچ دے، خواہ ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرے اور میرا خیال ہے کہ بڑے تاجر ایسے سامان خریدنے سے عاجز نہیں ہوتے جن کی خریداری میں لوگوں کی بہت دلچسپی ہو تاکہ وہ اپنی پسندیدہ قیمت کے ساتھ بیچ سکیں اور انہیں سود سے محفوظ رہ کر مطلوبہ نفع بھی حاصل ہو سکے، اور اگر ان کی نیت ان کریداروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہو جو نقد قیمت ادا کر کے خریدنے سے عاجز و قاصر ہوں تو انہیں امید ہے کہ آخرت میں اجروثواب بھی ملے گا کہ ارشاد نبوی ہے:
سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ کمپنی اسے ہی کہہ دیتی ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ سامان کو خرید لے، اگر کمپنی نے اسے اپنا وکیل بنایا ہے تو پھر وہ وہی مسئلہ ہے جس کے بارے میں ہم نے گفتگو کی ہے اور اگر کمپنی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے لیے سامان خریدے تو یہ ایسا قرض ہے جو موجب منفعت ہے اور اس کے صریحا ربا ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب