جس گاڑی کی نقد قیمت دس ہزار ہو، اسے قسطوں کی صورت میں بارہ ہزار میں بیچنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جیسا کہ آج کل گاڑیوں کی نمائش گاہوں میں یہ ایک عام رواج ہے؟
جب کوئی انسان کسی دوسرے کو گاڑی یا کوئی اور چیز نقد دس ہزار اور ادھار کی صورت میں بارہ ہزار میں بیچے اور وہ مجلس عقد میں کسی ایک معاملہ یعنی نقد یا ادھار قیمت پر متفق ہوئے بغیر الگ الگ ہو جائیں تو یہ بیع جائز نہ ہو گی کیونکہ اس صورت میں قیمت مجہول ہے اور نقد یا ادھار کی قیمت پر اتفاق نہیں ہے اور اس کے ممنوع ہونے کے لیے بہت سے علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا ہے۔[1] امام احمد و نسائی نے اسے روایت کیا اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اور اگر دونوں بیع کرنے والے مجلس عقد میں الگ الگ ہونے سے پہلے کسی ایک قیمت یعنی قیمت نقد یا قیمت ادھار پر متفق ہو جائیں اور قیمت کے تعین کے بعد الگ ہوں تو بیع جائز اور صحیح ہے کیونکہ اس صورت میں قیمت اور حالت معلوم ہے۔
[1] جامع ترمذی، البیوع، باب ماجاء فی النھی عن بیعتین فی بیعة ح: 1231 وسنن نسائی، ح: 4636