سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ادھار بیع میں زیادہ قیمت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے

  • 9256
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1017

سوال

ادھار بیع میں زیادہ قیمت کی کوئی حد مقرر نہیں ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کسی آدمی کے پاس چینی کی ایک بوری ہو جو نقد قیمت پر 80 ریال کی ہو لیکن جب ایک خریدار نے اس سے ادھار پر خریدنے کا مطالبہ کیا تو اس نے اسے ایک سو پچاس ریال میں بیچا۔ سوال یہ ہے کہ ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنے کی کوئی حد مقرر ہے جس کی پابندی کی جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیع نقد ہو یا ادھار دونوں طرح جائز ہے اور قیمتوں کے بارے میں اصول یہ ہے کہ ان میں تحدید نہیں ہے خواہ بیع نقد ہو یا ادھار کیونکہ اس کا تعلق رسد اور طلب سے ہے، لیکن لوگوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں رحم دلی اور رواداری سے کام لیں، بیع و شراء میں عالی ظرفی اور فراخ دلی کو اختیار کریں اور معاملات میں لوگوں کی تنگی اور مشکلات میں مبتلا کر دینے کے موقع کی تلاش میں نہ رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(رحم الله رجلا سمحا اذا باع‘ واذا اشتري) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب السهولة والمساحة في الشراء...الخ‘ ح: 2076)

"اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو بیع و شراء (خریدوفروخت) میں رواداری سے کام لیتا ہے۔"

جب کوئی انسان اپنے بھائی کو مشکل میں مبتلا کر دینے کے موقع کی تلاش میں ہو کہ اس کے پاس جو سامان ہو اس کے کسی بھائی کو اس کی شدید ضرورت ہو اور وہ سامان کسی اور کے پاس موجود نہ ہو یا موجود تو ہو لیکن بے حد کمائی کے لالچ میں تاجر لوگ بازار میں اس کی قیمت بڑھا دیں تو جس شخص کے پاس سامان موجود ہو تو اس کے لیے یہ حرام ہے کہ ضرورت مندوں کو اس کی نقد یا ادھار کی صورت میں ثمن مثل سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے، اور جو شخص اس طرح کے موقع پر موجود ہو تو اسے چاہیے کہ عدل و انصاف میں مدد دے اور ظلم سے روکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعتبار سے جو شخص جس درجہ پر فائز ہو، اسی کے حساب سے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یاد رہے بیع و شراء کے وقت کی موجود حالت ہی دراصل ثمن مثل کا تعین کرتی ہے کیونکہ ہر بازار اور ہر وقت کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور پھر سامان اور طلب کی قلت و کثرت سے بھی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے