جب کسی آدمی کے پاس چینی کی ایک بوری ہو جو نقد قیمت پر 80 ریال کی ہو لیکن جب ایک خریدار نے اس سے ادھار پر خریدنے کا مطالبہ کیا تو اس نے اسے ایک سو پچاس ریال میں بیچا۔ سوال یہ ہے کہ ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت وصول کرنے کی کوئی حد مقرر ہے جس کی پابندی کی جائے؟
بیع نقد ہو یا ادھار دونوں طرح جائز ہے اور قیمتوں کے بارے میں اصول یہ ہے کہ ان میں تحدید نہیں ہے خواہ بیع نقد ہو یا ادھار کیونکہ اس کا تعلق رسد اور طلب سے ہے، لیکن لوگوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں رحم دلی اور رواداری سے کام لیں، بیع و شراء میں عالی ظرفی اور فراخ دلی کو اختیار کریں اور معاملات میں لوگوں کی تنگی اور مشکلات میں مبتلا کر دینے کے موقع کی تلاش میں نہ رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو بیع و شراء (خریدوفروخت) میں رواداری سے کام لیتا ہے۔"
جب کوئی انسان اپنے بھائی کو مشکل میں مبتلا کر دینے کے موقع کی تلاش میں ہو کہ اس کے پاس جو سامان ہو اس کے کسی بھائی کو اس کی شدید ضرورت ہو اور وہ سامان کسی اور کے پاس موجود نہ ہو یا موجود تو ہو لیکن بے حد کمائی کے لالچ میں تاجر لوگ بازار میں اس کی قیمت بڑھا دیں تو جس شخص کے پاس سامان موجود ہو تو اس کے لیے یہ حرام ہے کہ ضرورت مندوں کو اس کی نقد یا ادھار کی صورت میں ثمن مثل سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے، اور جو شخص اس طرح کے موقع پر موجود ہو تو اسے چاہیے کہ عدل و انصاف میں مدد دے اور ظلم سے روکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعتبار سے جو شخص جس درجہ پر فائز ہو، اسی کے حساب سے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یاد رہے بیع و شراء کے وقت کی موجود حالت ہی دراصل ثمن مثل کا تعین کرتی ہے کیونکہ ہر بازار اور ہر وقت کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور پھر سامان اور طلب کی قلت و کثرت سے بھی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب