ایک آدمی اگر نقد قیمت پر دس گنی میں ایک سودا بیچتا ہے لیکن اگر وہ اسی سودے کو نقد قیمت کے بجائے ماہانہ قسطوں پر بیچے تو وہ اس سے بہت زیادہ قیمت وصول کرتا ہے، تو کیا یہ زائد قیمت سود شمار ہو گی یا زائد قیمت کے لیے کوئی حد مقرر ہے جس کی بائع کے لیے پابندی کرنا واجب ہے جب کہ وہ قسطوں میں قیمت وصول کر رہا ہو؟
جب امر واقع اسی طرح ہو جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو ادھار کی صورت میں نقد سے زیادہ قیمت پر سامان بیچنا جائز ہے، خواہ قیمت قسطوں میں ادا کی جا رہی ہو یا طے شدہ مدت پر یک مشت ہی ادا کر دی جائے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ الگ الگ ہونے سے پہلے بیع کی قسم کا تعین کر لیں اور اس بات کو بھی طے کر لیں کہ یہ بیع نقد ہو گی یا ادھار! زیادہ قیمت کو وصول کرنا سود نہیں ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی بھی نص نہیں ہے جس نے نقد کے بجائے ادھار کی صورت میں زائد قیمت کی مقدار کا تعین کیا ہو۔ ہاں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ضرور تترغیب دی ہے کہ بیع و شراء میں اور وصولی اور ادائیگی میں عالی ظرفی اور رواداری کا ثبوت دینا چاہیے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب