قبل از وقت ساقط ہو جانے والا ایسا بچہ جس کے بارے میں یہ واضح ہو کہ وہ بچہ ہے کہ بچی، کیا اس کا عقیقہ کیا جائے؟ وہ بچہ جو اپنی ولادت کے ند دن بعد فوت ہو جائے اور اس کی زندگی میں اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو، کیا بعد از وفات عقیقہ کیا جائے؟ کیا بچے کی ولادت پر جب ایک یا دو ماہ یا نصف یا پورا سال گزر جائے یا وہ بڑا ہو جائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو کیا اس کا بھی عقیقہ کیا جائے؟
جمہور فقہاء کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے کیونکہ سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بچے کے ساتھ عقیقہ ہے لہذا اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے ایذاء کو دور کرو۔"
اسی طرح حسن بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، اس (کی طرف) سے ساتویں دن ذبح کیا جائے، اس کا سر مونڈا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔"
اسی طرح عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے واسطے سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے تو وہ کرے۔ بچے کی طرف سے ایک جیسے دو بکرے اور بچی کی طرف سے ایک بکرا ذبح کرے۔"
ساقط ہو جانے والے بچے کی طرف سے عقیقہ نہیں ہے خواہ یہ واضح ہو چکا ہو کہ وہ بچہ ہے یا بچی جب کہ وہ نفخ روح سے قبل ساقط ہو جائے کیونکہ اسے بچہ یا مولود نہیں کہتے۔ عقیقہ ولادت کے ساتویں دن کیا جائے۔
جب بچہ زندہ پیدا ہو لیکن وہ ساتوین دن سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی طرف سے بھی ساتوین دن عقیقہ کرنا مسنون ہے، بعض فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر ساتواں دن گزر جائے تو اس کی وفات کے بعد عقیقہ کرنا مسنون نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ساتویں دن کا تعین فرمایا ہے۔
حنابلہ اور فقہاء کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ کیا جائے خواہ ایک مہینہ یا ایک سال یا ولادت کے بعد اس سے بھی زیادہ مدت گزر چکی ہو کیونکہ احادیث کے عموم سے یہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ بعثت کے بعد کیا تھا [1]اور زیادہ احتیاط بھی اسی میں ہے۔
[1] السنن الکبری: 9/300