سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حکم و احکام عقیقہ

  • 9243
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1300

سوال

حکم و احکام عقیقہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بچے اور بچی کی طرف سے بطور عقیقہ جانور ذبح کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا بچے کی طرف سے دو بکرے ذبح کرنا واجب ہے؟ اگر بچے کی پیدائش کو طویل عرصہ ہو گیا اور ایک جانور ذبح کر دیا جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر دادا پوتے کی طرف سے عقیقہ کر دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ جانور خریدنے میں مدد کر سکتا ہے؟ دعوت عقیقہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس دعوت میں کن امور کو ملحوظ رکھنا واجب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقیقہ سے مراد وہ جانور ہے جسے بچے کی پیدائش پر ذبح کیا جاتا ہے، یہ سنت مؤکدہ ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ واجب ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(كل غلام مرتهن بعقيقة تذبح عنه يوم سابعه ويسمي) (سنن ابي داود‘ الضحايا‘ باب في العيقيقة‘ ح: 2837ّ 2838 وجامع الترمذي‘ ح: 1522 وسنن ابن ماجه‘ ح: 3165 وسنن النسائي‘ ح: 4225 ومسند احمد: 5/7 واللفظ له)

"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، لہذا عقیقہ ساتوٰن دن کیا جائے اور ساتویں دن ہی بچے کا نام بھی رکھا جائے۔"

لیکن اس حدیث سے بھی اس کی تاکید ہی معلوم ہوتی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔ سنت یہ ہے کہ بچے کی طرف سے دو بکریاں یا دو بھیڑیں ذبح کی جائیں اور بچی کی طرف سے ایک ذبح کی جائے، بچے کی طرف سے بھی اگر ایک ہی جانور ذبح کیا جائے تو ان شاءاللہ یہ بھی کافی ہو گا۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک ہفتے کے بعد ایک جانور اور دوسرے ہفتے کے بعد دوسرا جانور ذبح کیا جائے لیکن یہ خلاف اولیٰ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ والد پر یہ واجب ہے کہ وہ اس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے جس نے اسے اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ اگر بچے کا دادا یا بھائی یا کوئی اور عقیقہ کر دے تو یہ بھی جائز ہے یا ان میں سے کوئی اگر جانور خریدنے میں تواون کر دے تو یہ بھی جائز ہے۔ سنت یہ ہے کہ عقیقہ کے گوشت کا ایک ثلث خود کھا لے، ایک ثلث اعزہ و اقارب کو ہدیہ کر دیا جائے اور ایک ثلث مسلمانوں میں صدقہ کر دیا جائے۔ یہ بھی جائز ہے کہ دعوت عقیقہ پر اعزہ و اقارب کو مدعو کیا جائے یا عقیقہ کے تمام گوشت کو صدقہ کر دیا جائے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے