سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

فوت شدہ کی طرف سے قربانی

  • 9237
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2284

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ جائز ہے کہ قربانی کا ثواب فوت شدہ کو ہدیہ کر دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی، عیدالاضحیٰ یا اس کے تین دن بعد جانور ذبح کر کے یا اونٹ نحر کر کے تقرب الہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ زندہ انسان کے لیے یہ سنت ہے کہ وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کیا کرتے تھے۔

جب کوئی انسان اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے اور یہ نیت کرے کہ اس کا اجروثواب اس کے اور اس کے زندہ ومردہ اہل خانہ کے لیے ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، باقی رہی میت کے لیے خاص قربانی تو اس کی دو حالتیں ہیں:

(1)میت نے اس کی وصیت کی ہو تو اس کی وصیت پر عمل کے پیش نظر اس کی طرف سے قربانی کی جائے گی کہ وصیت کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَمَن بَدَّلَهُ بَعدَ ما سَمِعَهُ فَإِنَّما إِثمُهُ عَلَى الَّذينَ يُبَدِّلونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ ﴿١٨١فَمَن خافَ مِن موصٍ جَنَفًا أَو إِثمًا فَأَصلَحَ بَينَهُم فَلا إِثمَ عَلَيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ﴿١٨٢﴾... سورة البقرة

"جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس کے (بدلنے) کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں اور بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔ اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف سے (کسی وارث کی) طرف داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔"

یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ میت کی وصیت پر عمل کیا جائے گا بشرطیکہ اس میں گناہ یا کسی کی حلق تلفی نہ ہو۔

(2)میت نے وصیت تو نہ کی ہو بلکہ از خود اس کی طرف سے قربانی کی جائے، اس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ یہ مشروع ہے یا غیر مشروع! بعض نے اسے زندہ کی طرف سے قربانی اور مردہ کی طرف سے صدقہ کی طرح مشروع قرار دیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ غیر مشروع ہے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ آپ کی حیات میں آپ کے اعزہ و اقارب اور ازواج مطہرات میں سے کئی ایک کا انتقال ہوا لیکن یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان میں سے کسی کی طرف سے بطور خاص قربانی کی ہو۔ اسی طرح آپ کی حیات پاک ہی میں آپ کی تین صاجزادیوں اور تین صاجزادوں کا انتقال ہوا لیکن یہ قطعا ثابت نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی کی طرف سے بطور خاص قربانی کی ہو۔ آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہوئے اور آپ نے ان کی طرف سے قربانی نہیں کی اور اسی طرح آپ کی حیات ہی میں آپ کی دوبیویوں حضرت کدیجہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہن کا انتقال ہوا اور آپ نے ان کی طرف سے بھی کبھی کوئی قربانی نہیں کی تھی۔

اس سے معلوم ہوا کہ اگر یہ امر مشروع ہوتا تو آپ اسے ضرور سر انجام دیتے، لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کا ارادہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ہے تو اپنی طرف سے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کیجئے اور نیت یہ کیجئے کہ یہ آپ کی اور آپ کے زندہ اور مردہ قریبی رشتہ داروں کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم بے حد وسیع ہے۔ (امید ہے وہ ان سب کو اپنے فضل و کرم سے سرفراز فرما دے گا)۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ