سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قربانی زندہ و مردہ کی طرف سے مشروع ہے

  • 9236
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 908

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، امید ہے آپ دلیل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے، نیز یہ فرمائیں گے کہ جانور کی قیمت صدقہ کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندہ اور مردہ کی طرف سے قربانی مشروع ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک بکری کی اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی دیا کرتے تھے، [1]حالانکہ آپ کے اہل بیت میں بعض فوت شدگان بھی تھے، مثلا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ کی دو صاجزادیاں حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا قربانی بھی ایک صدقہ ہے۔ لہذا یہ صدقہ اور قربت کے اعتبار سے دیگر صدقات کے مشابہہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے زندہ انسان کے لیے اس کی بہت تاکید معلوم ہوتی ہے نیز آپ کے اس ارشاد سے بھی ہے:

(من كان له ذبح يذبحه‘ فاذا اهل هلال ذي الحجة‘ فلا ياخذن من شعره ولا من اظفاره شيئا‘ حتي يضحي) (صحيح مسلم‘ الاضاحي‘ باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة...الخ‘ ح: 1977)

"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔"

بعض فقہاء نے اس مسئلہ میں جو یہ ذکر کیا ہے کہ جو شخص کسی کی طرف سے قربانی کر رہا ہو تو وہ بھی اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے تو مجھے اس کی کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں ملی کیونکہ اس حکم کا مخاطب صرف وہ انسان ہے جو اپنے مال سے قربانی کر رہا ہو، لہذا اس کے بیوی بچوں کو بال اور ناخن کاٹنے سے منع نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ قربانی کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کی طرف سے ان کے گھر کے سربراہ نے قربانی کی ہے، لہذا اس ممانعت کا مخاطب بھی وہی ہے۔

قربانی کے جانور کو ذبح کرنا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ اس میں سنت کا احیاء، اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اسوہ حسنہ کی اتباع ہے۔


[1] جامع ترمذی، الاضاحی، باب ما جاء ان الشاة الواحدة تجزی عن اھل البیت، حدیث: 1505 وسنن ابن ماجہ، حدیث: 3147

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ