سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

میت کی طرف سے قربانی

  • 9235
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 883

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا میت کی طرف سے بھی قربانی کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اکثر علماء کے قول کے مطابق قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کی اور اپنی امت کو بھی قربانی کی ترغیب دی۔ قربانی دراصل زندہ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے، لیکن وہ اپنی قربانی کے ثواب میں زندہ اور مردہ انسانوں میں سے جس کو چاہے شریک کر سکتا ہے۔

میت کی طرف سے قربانی کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ میت نے اگر اپنے ثلث مال میں سے اس کی وصیت کی ہو یا اپنے وقف مال کے بارے میں یہ وصیت کی ہو کہ اس سے اس کی طرف سے قربانی کی جائے تو وارثوں کے لیے یہ واجب ہے کہ اس کی وصیت اور وقف کو اس کی خواہش کے مطابق عملی جامہ پہنائیں اور اگر وصیت و وقف کی صورت نہ ہو اور کوئی انسان اپنے ماں، باپ یا کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے، اسے میت کی طرف سے صدقہ شمار کیا جائے گا اور اہل سنت والجماعت کے قول کے مطابق میت کی طرف سے صدقہ مشروع ہے۔ قربانی کے جانور کی قیمت کو جانور ذبح کرنے سے افضل قرار دیتے ہوئے صدقہ کرنے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر وصیت یا وقف میں قربانی ہی کا ذکر ہو تو پھر وکیل کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ قربانی کے بجائے قیمت کو صدقہ کر دے، اس صورت میں اسے قربانی ہی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص ازخود کسی کی طرف سے صدقہ کر رہا ہو تو اس میں بہت وسعت ہے جس صورت کو وہ چاہے اختیار کر لے۔ ہر وہ زندہ مسلمان جسے استطاعت ہو اس کے لیے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے اور قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ