سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جب کسی کی طرف سے کوئی دوسرا شخص قربانی کرے۔۔۔

  • 9229
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1414

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی طرف سے کوئی اور قربانی کرے گا تو کیا ذوالحجہ کے عشرہ کے آغاز کے بعد ان میں سے کسی کے لیے بال وغیرہ کاٹنا جائز ہے؟ کیا ان میں سے کسی ایک کے لیے جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز ہیں یا دونوں ہی کے لیے ناجائز ہیں؟ اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جس کی وہ بکری گم ہو گئی ہو جس کی قربانی کرنے کی اس نے نیت کی تھی، لیکن پھر وہ ایام حج ختم ہو جانے کے بعد مل گئی ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث میں آیا ہے:

(اذا رايتم هلال ذي الحجة‘ وراد احدكم ان يضحي‘ فليمسك عن شرعه واظفاره) (صحيح مسلم‘ الاضاحي‘ باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة...الخ‘ ح: 1977)

"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔"

حدیث میں اس شخص کا ذکر نہیں جس کی طرف سے کوئی اور قربانی کر رہا ہو، لیکن بعض علماء نے ایسے شخص کے لیے بھی یہ مکروہ قرار دیا ہے، ہاں البتہ اگر ان میں سے کوئی شخص بال یا ناخن کاٹ لے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے، اس کی قربانی بھی باطل نہ ہو گی، لہذا وہ قربانی ترک نہ کرے، اس کی قربانی ان شاءاللہ تعالیٰ مقبول ہو گی۔

جب کوئی شخص قربانی کرنے کا عزم کر لے اور جانور کو خرید لے لیکن جانور گم ہو جائے اور وہ ایام قربانی ختم ہو جانے کے بعد ملے تو اس کا ذبح کرنا لازم نہیں ہے، الا یہ کہ نذر کی وجہ سے یا اس جانور کی تعیین کی وجہ سے قربانی اس کے ذمہ واجب ہو، لیکن اگر وہ اسے ذبح کر دے اور اس کے گوشت کو بھی قربانی کی طرح صدقہ کر دے تو اسے ان شاءاللہ اجروثواب ملے گا۔ اور اگر اس نے ایام عید میں گم شدہ جانور کے بجائے کوئی اور جانور ذبح کر دیا ہو تو پھر اس کے لیے دوسرا جانور ذبح کرنا لازم نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ