سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اپنے مال سے قربانی کرنے والا بال نہ کٹوائے

  • 9227
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 953

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عشرہ ذی الحجہ میں کس شخص کے لیے بال اور ناخن کاٹنے حرام ہیں؟ کیا اس سے مراد جانور کو ذبح کرنے والا ہے یا وہ جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہو جب کہ وہ زندہ ہو اور قربانی خواہ اس ایک ہی کی طرف سے ہو یا وہ کچھ لوگوں کے ساتھ قربانی میں شریک ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماہ ذوالحجہ کے آغاز کے ساتھ ہی جس کے لیے بال اور ناخن کاٹنے حرام ہیں، اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال سے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے قربانی کرنا چاہتا ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اذا رايتم هلال ذي الحجة‘ وراد احدكم ان يضحي‘ فليمسك عن شرعه واظفاره) (صحيح مسلم‘ الاضاحي‘ باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة...الخ‘ ح: 1977)

"جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔"

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کیا ہے۔ ہاں! جو شخص اس کی طرف سے ربانی کر رہا ہو مثلا قربانی کرنے والے کی اولاد اور بیوی وغیرہ تو ان کے لیے بال یا ناخن کاٹنا حرام نہیں ہے جب کہ یہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کر رہا ہو کیونکہ اس کے اہل خانہ قربانی کرنے والے نہیں ہیں، کیونکہ علماء کے صحیح قول کے مطابق قربانی کرنے والا وہ ہے جو اپنے مال سے قربانی کی قیمت ادا کرے۔ اسی طرح اگر کسی کو قربانی کے لیے وکیل مقرر کیا ہو تو اس کے لیے بھی بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ قربانی کرنے والا نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ