سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قربانی اور ہدی میں فرق

  • 9225
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2598

سوال

قربانی اور ہدی میں فرق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کا کیا حکم ہے؟ کس پر واجب ہے؟ کیا قربانی اور ہدی میں فرق ہے؟ کیا قربانی حجاج پر بھی واجب ہے یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے، کب اور کہاں قربانی کی تھی؟ امید ہے آپ وضاحت فرمائیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کیا مراد ہے:

(من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا) (سنن ابن ماجه‘ الاضاحي‘ باب الاضاحي واجبة ام لا؟‘ ح: 3123)

"جس کے پاس استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ عید گاہ کے قریب نہ آئے۔"


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل علم کے صحیح قول کے مطابق قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جس کے پاس مالی استطاعت ہو اسے قربانی ضرور کرنی چاہیے کیونکہ یہ عیدالاضحیٰ اور ایام تشریق کی عبادات میں سے بے حد اہم عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ہمیشہ ہمیشہ قربانی کی ہے۔ آپ ہر سال سفید و سیاہ رنگ کے بڑے بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی دیا کرتے تھے جیسا کہ "صحیحین" میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔[1]

قربانی اور ہدی میں فرق یہ ہے کہ تمتع اور قران کی ہدی واجبات حج میں سے ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَ‌ةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ‌ مِنَ الهَدىِ...١٩٦... سورة البقرة

"سو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔"

جب کہ قربانی صحیح قول کے مطابق واجب نہیں ہے کیونکہ کوئی ایسی صحیح اور صریح نص موجود نہیں ہے، جس سے معلوم ہو کہ قربانی واجب ہے۔ ہدی اور قربانی میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہدی منیٰ اور بقیہ حرم میں ذبح کرنا مشروع ہے جب کہ قربانی ہر جگہ ذبح کی جا سکتی ہے، باقی احکام دونوں کے ایک جیسے ہیں مثلا ذبح کرنے کے وقت، مطلوبہ شرائط، گوشت کھانے اور صدقہ کرنے وغیرہ کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ حدیث:

(من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا) (سنن ابن ماجه‘ الاضاحي‘ باب الاضاحي واجبة ام لا؟‘ ح: 3123)

"جس کے پاس استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔"

اس کے بارے میں حافظ (ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ) نے "بلوغ المرام" میں لکھا ہے کہ اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور امام حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے جب کہ دیگر ائمہ نے کہا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے اور پھر یہ قربانی کے واجب ہونے کی صحیح دلیل بھی نہیں ہے۔ اگر اس کا مرفوع ہونا ثابت ہو بھی تو یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

(من اكل ثوما او بصلا فليعتزل مسجدنا) (صحيح البخاري‘ الاذان‘ باب ما جاء في الثوم الني‘ ...الخ‘ ح: 855)

"جو لہسن یا پیاز کھائے، وہ ہماری مسجد سے دور رہے (قریب نہ آئے)۔"

اہل علم کی رائے میں یہ حدیث لہسن اور پیاز کی حرمت کی موجب نہیں ہے بلکہ اس سے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ ان چیزوں کے استعمال کے بعد مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونا مکروہ ہے کیونکہ ان کی ناگوار بو سے مسلمانوں کو ایذاء پہنچتی ہے۔


[1] صحیح بخاری، الاضاحی، باب وضع القدم...الخ، حدیث: 5564 و صحیح مسلم، الاضاحی، حدیث: 1966

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے