بعض حاجیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ اگر مسجد نبوی کی زیارت نہ کی جائے تو حج ناقص ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
مسجد نبوی کی زیارت سنت ہے، واجب نہیں اور اس کا حج سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مسجد نبوی کی زیارت تو سارا سال مسنون ہے اور یہ حج کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تین کے سوا اور کسی مسجد کی طرف کجاوے نہ کسے جائیں (اور وہ تین مسجدیں یہ ہیں) مسجد حرام، (بیت اللہ) میری یہ مسجد ( مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)۔"
جب کوئی شخص مسجد نبوی کی زیارت کرے تو اس کے لیے مشروع یہ ہے کہ روضہ میں دو رکعتیں پڑھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلام عرض کرے، اسی طرح بقیع کی زیارت بھی مسنون ہے تاکہ وہاں مدفون شہداء حضرات صحابہ کرام اور دیگر مسلمانوں کی خدمت میں سلام پیش کیا جائے اور ان کے لیے دعا کی جائے جیسا کہہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بقیع کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے اور صحابہ کرام کو یہ تعلیم فرماتے کہ جب قبروں کی زیارت کریں تو یہ دعا پڑھیں:
"اے اس بستی کے رہنے والے مومنو! اور مسلمانو! تم پر سلام! بے شک ہم بھی ان شاءاللہ تم سے عنقریب ملنے والے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتے ہیں"
ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی زیارت کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
"اللہ تعالیٰ ہم میں سے پہلے جانے والوں اور پیچھے آنے والوں پر رحم فرمائے۔ اے اللہ! تو اہل بقیع الغرقد کو معاف فرما دے۔"
مسجد نبوی کی زیارت کرنے والے کے لیے یہ بھی مشروع ہے کہ وہ مسجد قباء کی بھی زیارت کرے اور اس میں دو رکعتیں پڑھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کے دن اس مسجد کی زیارت کرتے اور اس میں دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا ہے:
"جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے اور پھر مسجد قباء میں آ کر نماز پڑھے تو اسے عمرہ جتنا ثواب ملتا ہے۔"
یہ ہیں مدینہ کے وہ مقامات جن کی زیارت کی جاتی ہے، ان کے علاوہ باقی مقامات مثلا مساجد سبعہ، مسجد قبلتین اور دیگر مقامات وغیرہ جن کی زیارت کے بارے میں مناسک حج پر لکھنے والے بعض مؤلفین نے لکھا ہے تو یہ بے اصل اور بے دلیل ہے۔ مرد مومن کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مشروع یہ ہے کہ وہ سنت پر عمل کرے اور بدعت سے بچے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب