ایک حاجی کا کہنا ہے کہ جب مدینہ منورہ کے کسی کبوتر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ مکہ مکرمہ آ جاتا ہے اور کعبہ مشرفہ کے اوپر چکر لگاتا ہے گویا طواف وداع کر رہا ہو اور پھر کچھ میلوں کی مسافت تک اڑنے کے بعد مر جاتا ہے، کیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟
مدینہ اور مکہ کے کبوتروں کی دوسرے مقامات کے کبوتروں کی نسبت کوئی خصوصیت نہیں، سوائے اس کے کہ کسی کے لیے ان کا شکار کرنا یا انہیں بھگانا جائز نہیں، خواہ اس کا حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو اور اگر کوئی حرمین شریفین سے نکل جائے تو پھر اس کے لیے ان کا شکار حلال ہے بشرطیکہ وہ یہ شکار محرم کے لیے نہ کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا۔"
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے، مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی میں اسے حلال قرار دیا گیا تھا، نہ اس کے گھاس کو کاٹا جائے اور نہ اس کے درخت کو چھانٹا یا کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے۔"
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کی دونوں سرحدوں کے درمیان کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے کانٹے دار درخت کو نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے جانوروں کا شکار کیا جائے۔"
جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ جب مدینہ منورہ کے کسی کبوتر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اڑ کر مکہ چلا جاتا ہے اور کعبہ کی فضا میں چکر لگاتا ہے تو وہ جاہل ہے۔ اس نے ایک ایسی بات کا دعویٰ کیا ہے جو قطعا صحیح نہیں ہے کیونکہ موت کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے سوا اور کسی کو نہیں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ کس سر زمین میں اسے موت آئے گی۔"
کعبہ کا طواف وداع تو اس کے لیے ہے جو حج یا عمرہ کرے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ کبوتر کو موت کے وقت کا علم ہو جاتا ہے، لہذا وہ کعبہ کے اوپر اڑ کر طواف وداع کرتا ہے یہ ایک بالکل جھوٹا دعویٰ ہے، اس کی جرات کوئی جاہل شخص ہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے بارے میں افتراء پرداز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب