سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مکہ مکرمہ میں برائی کا گناہ زیادہ ہونا

  • 9214
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1719

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مکہ مکرمہ میں، دوسری جگہ کی نسبت برائی کا گناہ بی کئی گنا زیادہ ہوتا ہے، جس طرح نیکی کا ثواب کئی گنا زیادہ ہوتا ہے اور یہ کیوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ادلہ شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ افضل زمان و مکان مثلا رمضان ، عشرہ ذی الحجہ اور حرمین شریفین میں نیکیوں کا ثواب زیادہ ہوتا ہے، لہذا مکہ مکرمہ میں بلاشبہ نیکیوں کا ثواب کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

حدیث صحیح میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(صلاة في مسجدي هذا خير من الف صلاة في ماسواه الا المسجد الحرام‘ وصلاة في المسجد الحرام خير من مائة صلاة في مسجدي) (مسند احمد: 4/5 وصحيح ابن حبان‘ ح: 1027 واللفظ له للبيهقي في السنن الكبري : 5/246 وصله متفق عليه من حديث ابي هريرة)

"میری اس مسجد میں نماز دیگر مسجدوں کی ایک   ہزار نماز سے بہتر ہے ہاں البتہ مسجد حرام میں ایک نماز میری اس مسجد کی ایک سو نماز سے بہتر ہے۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے بقدر اور مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نماز کے بقدر ملتا ہے، اسی طرح دیگر اعمال صالحہ کا ثواب بھی یہاں زیادہ ملتا ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی حد مذکور نہیں ہے کہ کس قدر زیادہ ملتا ہے بلکہ یہ حد صرف نماز کے بارے میں ہے، دیگر اعمال مثلا روزہ، اذکار، قراءت قرآن اور صدقات وغیرہ کے بارے میں مجھے کوئی نص معلوم نہیں کہ ان کا کس قدر زیادہ ثواب ملتا ہے۔ ہاں البرہ اتنی بات یقینی ہے کہ یہاں اعمال صالحہ کا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ اور وہ حدیث جس میں یہ ذکر کیاگیا ہے:

(من صام في مكة كتب الله له مائة الف رمضان) (سنن ابن ماجه‘ الاضاحي‘ باب صوم شهر رمضان بمكة‘ ح: 3117)

"جو شخص مکہ میں روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھ دیتا ہے۔"

تو یہ حدیث اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بلاشبہ مکہ مکرمہ میں نیکیوں کا ثواب تو زیادہ ملتا ہے۔ لیکن کسی نص سے اس اضافہ کی مقدار کا تعین ثابت نہیں، ہاں البتہ صرف نماز کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ یہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ملتا ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے۔

برائیوں کے بارے میں محقق اہل علم کی یہ رائے ہے کہ ان کا گناہ عدد کے اعتبار سے تو زیادہ نہیں ہوتا، ہاں البتہ کیفیت کے اعتبار سے ضرور زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿مَن جاءَ بِالحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ‌ أَمثالِها ۖ وَمَن جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها...١٦٠... سورة الانعام

"جو کوئی (اللہ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو کوئی برائی لائے گا اسے سزا ویسی ہی ملے گی۔"

برائیوں کا گناہ عدد کے اعتبار سے زیادہ نہیں ہوتا خواہ ان کا ارتکاب رمضان میں کیا جائے یا حرم میں۔ ایک برائی کو ہمیشہ ایک ہی قرار دیا جاتا ہے اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر فضل و احسان ہے۔

ہاں البتہ جو برائی حرم میں یا رمضان میں یا عشرہ ذی الحجہ میں کی جائے اس کا گناہ یقینا زیادہ ہے یعنی مکہ میں کی جانے والی برائی کا گناہ جدہ اور طائف وغیرہ میں کی جانے والی برائی سے زیادہ ہو گا، اسی طرح رمضان اور عشرہ ذی الحجہ میں کی جانے والی برائی کا گناہ رجب اور شعبان وغیرہ میں کی جانے والی برائی سے زیادہ ہو گا لیکن یہ اضافہ کیفیت کے اعتبار سے ہے عدد کے اعتبار سے نہیں  جب کہ نیکیوں کے ثواب   میں اضافہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل سے کیفیت اور عدد دونوں اعتبار سے ہوتا ہے۔

حرم میں برائی کے ارتکاب کے شدید ہونے پر یہ ارشاد باری تعالیٰ دلالت کناں ہے:

﴿وَمَن يُرِ‌د فيهِ بِإِلحادٍ بِظُلمٍ نُذِقهُ مِن عَذابٍ أَليمٍ ﴿٢٥﴾... سورة الحج

"اور جو اس میں شرارت سے کجروی (و کفر) کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔"

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حرم میں برائی کا ارادہ کرنے پر بھی وعید ہے اور اگر حرم میں الحاد کے ارادہ پر عذاب الیم کی وعید ہے تو جو یہاں الحاد اور سئیات و منکرات کا ارتکاب کرے تو اس کا گناہ یقینا محض ارادہ کرنے والے سے زیادہ ہو گا، لہذا معلوم ہوا کہ حرم میں برائی کا ارتکاب بے حد خطرناک ہے۔

الحاد کا لفظ عام ہے اور یہ ہر باطل کی طرف میلان کو شامل ہے خواہ اس کا تعلق عقیدہ سے ہو یا کسی اور بات سے۔ یہی وجہ ہے کہ (وَمَن يُرِ‌دْ فِيهِ بِإِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ) میں الحاد کا لفظ نکرہ استعمال ہوا یعنی خواہ جس الحاد کا بھی ارادہ کیا جائے اور الحاد کے معنی حق سے روگردانی کے ہیں اور یہ روگردانی عقیدہ میں بھی ہو سکتی ہے، لہذا جو کوئی یہاں کفر اختیار کرے اس کا گناہ اعظم اور اس کا الحاد بہت بڑا ہو گا۔ حق سے اس روگردانی کا تعلق دیگر برائیوں مثلا شراب نوشی، بدکاری اور ماں باپ کی نافرمانی سے بھی ہو سکتا ے، تو جو شخص ان میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا کفر کی نسبت کم ہو گی۔

الحاد کی نوعیت اگر انسانوں پر ظلم کی ہے یعنی اگر یہاں کوئی قتل کرتا ہے یا مارتا ہے یا مال چھینتا ہے یا گالی وغیرہ دیتا ہے تو یہ بھی بے شک الحاد اور ظلم ہے اور اس کی سزا بھی بے حد خطرناک ہے لیکن وہ الحاد جو کفر باللہ اور دائرہ اسلام سے خروج کی شکل میں ہے وہ دیگر تمام برائیوں کی نسبت بدترین صورت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الشِّر‌كَ لَظُلمٌ عَظيمٌ ﴿١٣﴾... سورة لقمان

"بے شک شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے۔"

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ